انقرہ یا انگورہ
ترکی کا سابق دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ۔
یہ 55•39 درجے شمال اور 50•32 درجے مشرق میں واقع ہے۔
اس کی آبادی تقریبا 38 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ پرانے زمانے میں یہ انگورہ، انکیرہ اور انکورہ کے نام سے مشہور تھا۔ مگر 1923ء میں جب یہ ترکی کا صدر مقام قرار پایا تو اس کا نام انقرہ رکھ دیا گیا۔
انقرہ ایک پرانا تاریخی شہر ہے۔ 189 قبل مسیح میں رومن اس شہر میں داخل ہوئے اس وقت یہ شہر بازنطینی حکمرانوں کے قبضہ میں تھا۔
620 ء میں ساسانی بادشاہوں نے اس پر تابڑ توڑ حملے کیے اور بالآخر اس پر قبضہ کرلیا۔ 1073ء میں یہاں ترکوں کی حکومت قائم ہوگئی۔ 1101ء میں عیسائیوں نے اس پر قبضہ کر لیا لیکن 1227ء میں سلجوق ترکوں نے پھر عیسائیوں سے اسے واپس لے لیا۔
1354ء میں سلیمان پاشا نے اسے سلطنتِ عثمانیہ میں شامل کرلیا اس کے بعد یہ عربوں کے قبضہ میں چلا گیا۔
جنگِ عظیم اوّل کے بعد اسے ترکی میں شامل کر لیا گیا۔ ترکی کی جنگِ آزادی کی تحریک کا آغاز اِسی شہر سے ہوا۔ اور مصطفٰی کمال پاشا نے اِسے اپنی سرگرمیوں کا مٙحور اور مرکز بنائے رکھا۔ اسی بنا پر اسے پورے ترکی میں اہمیت حاصل ہو گئی چنانچہ اسے ترکی کا دارالحکومت بنا دیا گیا۔
صدر مقام ہونے کے سبب یہاں دنیا بھر کے سفارتخانے، قونصل خانے، غیر ملکی ملٹی نیشنل کمپنیوں، ایئرلائنوں کے دفاتر بھی ہیں۔ یہ ایک انتہائی ترقی یافتہ شہر ہے۔
متعدد ادیبوں اور شاعروں کا مسکن رہا ہے۔ اس کے قابلِ دید مقامات میں یہ شامل ہیں۔۔۔
“حطی عجائب گھر” :
یہ انقرہ کے مشہور آثارِ قدیمہ کے عجائب گھر کے قریب ہی واقع ہے۔ افتتاح 1951ء میں ہوا تھا۔ یہ نوادرات کے اعتبار سے دنیا بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اس کے صدر دروازے پر بادشاہوں کے مجسمے ہیں ان میں سے ایک مجسمہ حطیوں کے جنگی دیوتا کی عکاسی کرتا ہے۔
“آگسٹس کا مندر” :
یہ مندر بیرم مسجد کے قریب ہی واقع ہے اس کے بارے میں کچھ ماہرینِ آثارِ قدیمہ کا خیال ہے کہ یہ 200 سال قبل از مسیح میں تعمیر کیا گیا تھا لیکن چند ایک کا خیال ہے کہ یہ تین سو سال قبل مسیح کا بنا ہوا ہے۔ بہرصورت یہ آگسٹس کے دورِ حکومت ہی میں تعمیر کیا گیا تھا۔
“کمال اتاترک کا مقبرہ” :
کمال اتاترک جدید ترکی کا بانی اور صدر تھا۔ یہ مقبرہ 1944ء اور 1953ء کے درمیانی عرصہ میں تعمیر ہوا یہ راستیپ پہاڑی پر ایستادہ ہے۔ یہ 180 تا 235 فٹ لمبا اور سطح زمین سے 70 فٹ اونچا ہے۔
“بیرم ولی مسجد” :
یہ آگسٹس کے مندر کے قریب ہی بنی ہوئی ہے یہاں 17ویں صدی کے دوران میں مشہور مصور مصطفٰی نے اپنے فن کے نادر نمونے پیش کیے تھے۔ 18ویں صدی میں اسے رنگین ٹائلوں سے سجا دیا گیا یہ خوبصورت مسجد سیاحوں کے لیے ایک دلکش مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔
“مسجدِ ارسلان” :
یہ انقرہ کی بڑی مساجد میں سے ایک ہے اس کی تعمیر کا کام 1290ء میں مکمل ہوا اس کا بڑا مینار اینٹوں کا بنا ہوا ہے اور خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔
“اتاترک ہاؤس” :
اتاترک ہاؤس صدارتی محل کے قریب ہی جنکایا پہاڑی پر بنا ہوا ہے۔ تحریکِ آزادی کے دوران غازی مصطفٰی کمال پاشا یہیں بیٹھ کر ترکی کو ترقی دینے کے منصوبے بناتے رہے۔
حکومتِ ترکی نے ان کی یادگار کے طور پر اب اسے ایک عجائب خانہ میں منتقل کر دیا ہے۔
“اورمان کفیتگی زرعی فارم” :
انقرہ سے پانچ کلومیٹر کی دُوری پر اورمان کفیتگی فارم ہے جس کی بنیاد 1925ء میں خود کمال اتاترک نے رکھی تھی۔ اس کی وفات سے کچھ عرصہ قبل اسے قومی ملکیت قرار دے دیا گیا تھا۔ اگرچہ یہ بالکل بنجر اور غیر آباد علاقے میں واقع ہے۔ لیکن پھر بھی یہ بڑا سرسبز اور شاداب ہے۔ اس کے پاس ہی ایک ڈیری فارم اور آٹا پیسنے کی چکی بھی ہے۔
“بیراج” :
یہ انقرہ سے ١١ کلومیٹر جانب شمال واقع ہے۔ یہیں انقرہ شہر کا سب سے بڑا ذخیرہِ آب ہے۔ یہ بند کمال اتاترک کے عہد میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ ٢٠٠ میٹر چوڑا اور ٦٨ میٹر اونچا ہے۔
“مواصلات” :
اندرونِ شہر سفر کرنے کا سب سے اچھا ذریعہ بسیں اور ٹرالی بسیں ہیں۔ علاوہ ازیں “ڈالمس” ایک خاص قسم کی ٹیکسیاں بھی چلتی ہیں جن میں پانچ افراد سفر کر سکتے ہیں اور منزل مقصود پر پہنچ کر کرایہ برابر ادا کرتے ہیں۔ عموماً مقررہ جگہوں کے لئے کرائے مخصوص ہیں۔ ایئر پورٹ اور ریلوے اسٹیشن بھی ہیں۔
“ہوٹل” :
انقرہ میں جدید طرز کے ہوٹلز بھی ہیں جن میں ڈیلکس، گرینڈ ہوٹل، ہوٹل باریگان، انقرہ پیلس، ہوٹل مناکو وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
“تعلیمی نظام” :
یہاں تین یونیورسٹیاں ہیں :
١ : مشرقِ وُسطٰی کی تکنیکی یونیورسٹی جس کا قیام 1956ء میں عمل میں آیا اس میں ترکی کے علاوہ بہت سے غیر ملکی طلباء بھی زیرِ تعلیم ہیں۔
٢ : دوسری انقرہ یونیورسٹی ہے 1946ء میں قائم ہوئی۔
٣ : اور تیسری عمومی یونیورسٹی ہے اس کا قیام1967ء میں عمل میں آیا۔
۔۔۔۔ابن الاشرف۔۔۔۔