راجہ ہرنام دیو ؛ HARNAM DEV
عہدِ حکومت : 2379 قبل مسیح تا 2340 قبل مسیح :
“”انگوروں کے باغات پر خصوصی توجہ دینے والے اور فِسق و فجُور میں غرق اُس سیاہ کار راجہ کا عہد بھی عجیب عہد تھا۔ ہر صحن میں شراب کشید کی جاتی، ہر گھر میں جام کھنکتے، راہ چلتی عورتوں کو اغوا کر کے عشرت کدے سجائے جاتے، غرضیکہ شاہی محل کے کونے کونے اور بڑے شہروں کی ہر گلی میں ہنگامہ ہوتا۔ آخر کار یہی ہنگامے اُسے نِگل گئے””۔
“خاندانِ پانڈواں” کی کشمیر پر فرمانروائی کا تقریباً ایک ہزار سالہ عظیم اور طویل عہد جو راجہ سِکھ دیو کے زمانے سے تنٙزُّل کا شکار ہو گیا تھا اور بعد میں آنے والے کچھ راجاؤں’ جیسے “سندیمان” وغیرہ نے اسے سنبھالنے کی کوشش کی تھی، مگر راجہ ہرنام دیو کے عہد میں بالکل ہی تباہی کا شکار ہو گیا۔
یہ حکمران 2379 قبل مسیح میں کشمیر کے تخت پر متمکن ہوا۔ اس کی تخت نشینی کے ساتھ ہی خاندانِ پانڈواں کی حکومت کا نقشہ ہی بدل گیا۔ ہرنام دیو نے جُور و تعدّی کا ایسا بیج بویا جو آگے چل کر اس کے خاندان کی مکمل بیخ کٙنی کا باعث بنا۔ عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کی شیطانی رٙوٙش نے اسے دنیا و مافِیہا سے بے خبر کر دیا۔ ہر وقت شراب کی محفلیں برپا رہتیں۔ شراب کشید کرنے کی غرض سے اُس نے جا بجا انگوروں کے باغات لگوائے۔ ہرنام دیو کی ان کاروائیوں نے عوام کو بھی اس کا ہم مشرب بنا دیا۔ گلی گلی کُوچہ کُوچہ اور نگر نگر شراب خانے کُھل گئے۔ ہر صحن میں شراب تیار ہوتی۔ ہر کمرے میں پی جاتی اور ہر گلی میں ہنگامہ برپا ہوتا۔ جن لوگوں کو ناداری کے باعث شراب دستیاب نہ ہوتی تھی اُن کے لیے اس اُمُّ الخبائث کا سرکاری سطح پر اہتمام کیا جاتا۔ اُس زمانے میں شراب قانونی طور پر جائز فعل تصور ہوتی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری بدکاریاں بھی معمول بن گئیں۔
زنا کاری رنڈی بازی اور قُمار بازی معمولی مشاغل سمجھے جانے لگے۔ رعایا کی بہو بیٹیاں راجہ کے ہاتھوں خراب ہونے لگیں۔ راہ چلتی مستورات کو زبردستی پکڑ لینا ایک عام بات تھی۔ چونکہ لوگ ہمیشہ حکمران کی تقلید کرتے ہیں اس لیے عوام نے بھی پٙر پرزے نکالنے شروع کر دیے۔ عام راستوں کے بیچ اور دن دیہاڑے چوراہوں میں زنا کاری ہوتی مگر کیا مجال کہ کوئی روکنے یا سمجھانے کی کوشش کرے۔
یہ حشر برپا ہوتے دیکھ کر راجہ کے غیُّور وزیر دُرگا کی رگوں میں غیرت کے خون نے جوش مارا۔ آخر کار وہ خفیہ طور پر کچھ فوج جمع کر کے راجہ پر چڑھ آیا۔ ہرنام دیو جیسے مدہوش راجہ کو مغلوب کرنا کچھ مشکل نہ تھا۔ اس لیے وزیر دیکھتے ہی دیکھتے راجہ کے وفاداروں کو پسپا کر کے دارالحکومت میں داخل ہو گیا۔ دُرگا نے محلّاتِ شاہی کو جو قحبہ خانے بن چکے تھے جٙلا کر راکھ کر دیا۔ اس آتشزدگی کیوجہ بہت سے ملحقہ علاقے بھی متاثر ہوئے۔ شراب کے رٙسیا عوام نے خیال کیا کہ دُرگا نے جان بوجھ کر یہ زیادتی محض انہیں ستانے کو کی ہے۔ بس پھر کیا تھا ایک کی زبان سے دُرگا کے خلاف کوئی تلخ بات نکلی تو سب کے سب اُٹھ کھڑے ہوئے اور وزیر کی وفادار فوج پر حملہ کر دیا۔ دُرگا اِس حملے میں مارا گیا اور اُس کی فوج منتشِر ہو گئی۔ بدی کی سیاہی بدستور غالب رہی اور ہرنام دیو حسبِ معمول حکومت پر قائم رہا۔ رعایا کی قربانی اور جاں فشانی کی داد دیتے ہوئے اس نے دو سال کا لٙگان بالکل معاف کر دیا اور خود پہلے سے بھی زیادہ آزادی کے ساتھ عیش و عشرت اور بدکاری میں مٙحو ہو گیا۔ ہرنام دیو’ دُرگا کی موت کے بعد سمجھتا تھا کہ میں تمام خطرات سے بے نیاز ہو گیا ہوں۔
لیکن دوسری طرف مقتول کا بیٹا “رنگو” دن رات اپنے باپ کا انتقام لینے کی تدبیر میں رہتا تھا۔ وہ بھی اپنے باپ کی طرح اخلاق باختہ راجہ کی رنگین طبع اور رعایا کی بے راہ روی کا سخت مخالف تھا۔ آخر کار 2340 قبل مسیح میں ہرنام دیو ایک دن شکار کھیلنے کے لیے نکلا تو رنگو نے اپنے ہمراہیوں کیساتھ موقع ملتے ہی اسکو ہلاک کر دیا۔ غیرت مند رٙنگُّو کے ہاتھ سے قتل ہونے والے راجہ ہرنام دیو نے 39 سال تک کشمیر پر حکمرانی کی۔ اس کا پورا عہدِ حکومت اخلاق اور نیکی کے دامن پر سیاہ دھبے کا درجہ رکھتا ہے۔ ہر چند کے خاندانِ پانڈواں کے راجگان کی کشمیر پر حکومت طویل عہد راجہ سِکھ دیو کے مسلسل تساہل اور عیش کوشی کے باعث مائل بہ زوال ہو چکا تھا مگر اس عظیم خاندان کی تباہی اور تنزلی میں جو کسر رہ گئی تھی وہ ہرنام دیو کی سیاہ کاریوں نے پوری کر دی۔ گو کہ ہر نام دیو کے بعد بھی متعدد حکمرانوں نے کشمیر کے تخت پر بیٹھ کر حکومت کا فریضہ انجام دیا لیکن عام طور پر ہرنام دیو کا عہد خاندانِ پانڈواں کے اِقتدار کی آخری ہِچکی شمار کیا جاتا ہے۔ جس کی واحد وجہ اس کی بدمعاشی، بدکرداری، بہیمانہ جنسی ہوس اور خُمار پرستی تھی۔
اِبنُ الاٙشرٙف