ملکہ وکٹوریہ کا انتقال

ملکہ وکٹوریہ کا انتقال

22 جنوری 1901ء کو انگلستان پر سب سے طویل عرصہ تک حکمرانی کرنے والی ملکہ “ملکہ وکٹوریہ” 81 برس کی عمر میں انتقال کر گئی۔اُس نے تختِ برطانیہ اور اس کی نو آبادیوں پر 63 برس حکومت کی۔اس کے عِہد میں سلطنتِ برطانیہ اِس قدر وسیع ہوئی کہ اِس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔
ملکہ وکٹوریہ 24 مئی 1819ء کو پیدا ہوئی تھی۔ وہ ڈیوک آف کینٹ کی صاحبزادی تھی اور 1837ء میں تخت نشین ہوئی تھی۔ 1840ء میں اس کی شادی جرمنی کے پرِنس البرٹ سے ہوئی۔ ملکہ وکٹوریہ کے عِہد میں برطانیہ میں 10 وزرائے اعظم برسرِاقتدار آئے۔اُن میں چار مرتبہ منتخب ہونے والا گلیڈ اسٹون سب سے ناپسندیدہ
وزیر اعظم تھا۔
ملکہ وکٹوریہ کے عِہد کے واقعات میں سے ایک واقعہ 1857ء کی ہندوستان کی جنگِ آزادی تھا۔ جِسے انگریز مؤرخین بغاوت یا غدر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اِس جنگ کے بعد ہندوستان با ضابطہ طور پر حکومتِ برطانیہ کے زیرِ تسلط آگیا۔
ملکہ وکٹوریہ 1861ء میں اپنے شوہر کی وفات کے بعد بڑی حد تک گوشہ نشین ہوگئی تھی، بلکہ 1887ء میں جب اس کی تخت نشینی کی گولڈن جوبلی منائی گئی تو وہ ایک مرتبہ پھر خبروں کا موضوع بن گئی۔ملکہ وکٹوریہ کی تخت نشینی کی یہ گولڈن جوبلی تقریبات دنیا بھر میں منائی گئیں اور اس کی متعدد یادگاریں بھی تعمیر ہوئیں۔کراچی کی ایمپریس مارکیٹ بھی اسی موقع پر تعمیر ہوئی تھی۔
الیگزینڈرینا وکٹوریا جب پیدا ہوئی اس وقت جارج سوئم ابھی تخت نشین تھا اور اس کا باپ ڈیوک آف کینٹ محض بادشاہ کا چوتھا بیٹا تھا لیکن یہ حسنِ اتفاق تھا کہ وکٹوریا کے چچاؤں کے تمام بیٹے مر گئے لہٰذا جارج چہارم کے مرنے کے بعد اُس کے بھائی ڈیوک آف کلیرئنس وِلیم چہارم تخت نشین ہوا۔ اِس طرح اُس کی وفات کے بعد وکٹوریا تخت نشین ہوئی۔
جارج چہارم اور اُس کے بھائی انگلینڈ میں انتہائی غیر مقبول تھے۔ بَدکردار اور بے قوف امراء سے لے کر چھوٹے طبقہ تک سبھی افراد انہیں نا پسند کرتے تھے۔ محنت کش طبقہ، کارخانوں کے مزدور، کھیتوں میں کام کرنے والے کسان سبھی اُن سے نالاں تھے۔ عوام کی بے چینی خونی اِنقلاب کا پیش خیمہ بن رہی تھی لیکن جب یہ نوجوان اور خوبصورت
لڑکی تخت پر بیٹھی لوگ مطمئن تھے کہ اب انگلینڈ میں نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے کیوں کہ وکٹوریہ اُس ماں کی بیٹی تھی جو شاہی خاندان کے انداز و اطوار سے شدید نفرت کرتی تھی۔ وہ نہایت متحمل مزاج ملکہ تھی۔ جس کا عِلمی مظاہرہ اِس نے اُس وقت کیا جب رسمِ تاج پوشی کے دوران باتھ اور ویلز کے بشپ نے غلطی سے دعاؤں کی کتاب کے دو صفحے ایک ساتھ پلٹ دیئے اور دعا بہت جلد ختم ہو گئی۔ ملکہ کو سب ڈی ویسٹ منسٹر نےاِس بارے میں اطلاع دی تو اس نے بشپ کو حکم دیا کہ وہاں سے دعا دوبارہ شروع کرائی جائے جہاں سے اس سے غلطی ہوئی ہے۔ تاج پوشی سے پہلے اور بعد میں جشن منایا گیا جو کہ لندن کی تاریخ کا اعلیٰ ترین جشن تھا۔ ملکہ کی شان و شوکت کو ہزاروں غیر ملکیوں نے بھی دیکھا۔
ملکہ وکٹوریہ ایک بھرپور عورت تھی۔اِس کے چند وزیروں کے ساتھ گہرے مراسم تھے۔ان میں سے ایک شخص لارڈ ملبورن تھا۔ ملکہ نے اس سے سیاسی اسرار و رموز کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔ ایک موقع پر اس نے ملبورن سے تعلقات ختم کرنے سے انکار کر دیا۔ ہاؤس آف کامنز میں ٹوریز پارٹی کی تعداد زیادہ تھی۔ اور سر رابرٹ پیل وزیرِاعظم بننے والے تھے۔ اس بڑے سیاسی گروہ کی مخالفت مول لینے پر ملکہ کو تضحیک کا نشانہ بننا پڑا۔ ایک موقع پر اسے مِسز ملبورن کہہ کر اس کا مذاق بھی اڑایا گیا حالانکہ ملبورن کے ساتھ اس کے تعلقات مخلصانہ تھے اور وہ ملکی امور میں محض اس کی مشاورت کرتا تھا البتہ بعض دیگر لوگوں کے ساتھ اس کے رومانوی تعلقات بھی تھے، آخرکار وہ ایک عورت تھی۔
تخت نشینی کے دو سال بعد ایک جرمن شہزادے البرٹ کے ساتھ اس کی منگنی کا اعلان کر دیا گیا۔ وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو چکی تھی۔ شہزادہ بھی مسحور کن شخصیت کا مالک تھا۔ 1857ء میں اسے پرنس آف کنسورٹ کا خطاب دیا گیا۔ ملکہ یہ پسند نہیں کرتی تھی کہ کوئی اس پر حکم چلائے لیکن پرِنس البرٹ خوش شکل ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ذہین بھی تھا۔ جِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بہت حقیقی حکمران بن گیا۔ امورِ سلطنت کے اکثر فیصلے وہی کرتا تھا،ملکہ صرف توثیق کرتی تھی۔
انیسویں صدی کے آخری زمانے میں جب دنیا میں بادشاہت زوال پذیر تھی، ملکہ کا اقتدار بہت مضبوط اور مستحکم تھا۔وہ اپنے دور کی نمائندگی کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عوام اُسے پسند کرتے تھے۔

“بیسویں صدی کے واقعات سے ماخوذ۔”

(اِبنُ الاٙشرف💓)

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *