غازی عثمان اوّل
خلافتِ عثمانیہ کا بانی اور پہلا حکمران۔
پیدائش : 1258ء صوغوت۔(اناطولیہ ترکی)۔
وصال : 1326ء بورصہ۔ (ترکی)۔
غازی عثمان خان نامی ترکمان سردار نے 1288ء میں اناطولیہ کے اندر ایک طاقتور ریاست قائم کی جو اس کے نام کے حوالے سے سلطنتِ عثمانیہ کہلائی۔
عثمان 1258ء میں پیدا ہوا۔
یہ امیر ارطغرل بن سلیمان بلخی کا بیٹا تھا۔ سلطنتِ عثمانیہ کے قیام کا تاریخی پس منظر کچھ اس طرح ہے۔
سلطنت عباسیہ کے خاتمہ کے بعد مسلمان اِدھر اُدھر بکھرنے لگے۔
ایک ترک قبیلہ اپنے سردار ارطغرل کی ماتحتی میں شام کی طرف جا رہا تھا کہ اسے انگورہ(انقرہ) کے قریب دو فوجیں لڑتی ہوئی نظر آئیں۔ ارطغرل نے کمزور فریق کی حمایت کرتے ہوئے اس کی مخالف فوج پر اس زور سے حملہ کیا کہ دشمن نے راہِ فرار اختیار کی۔ جنگ جیتنے پر ارطغرل کو معلوم ہوا کہ اس نے تاتاریوں کے خلاف سلطان علاء الدین کیقباد کی مدد کی ہے۔ سلطان علاء الدین ارطغرل کے اس کارنامے سے اتنا خوش ہوا کہ اس نے دریائے سقاریہ کے بائیں جانب کا زرخیز علاقہ ارطغرل کو بطورِ جاگیر دے دیا۔ یہ علاقہ بعد میں صوغوت کہلایا۔ ارطغرل نے آہستہ آہستہ سیاسی قوت حاصل کرلی۔ یہاں تک کہ وہ علاؤالدین کیقباد کا نائب بن گیا۔ اس نے سلطان علاء الدین کیقباد کے نائب کی حیثیت سے تاتاریوں اور بازنطینیوں کی ایک متحدہ فوج کو زبردست شکست دی۔ سلطان نے خوش ہو کر اس کی جاگیر میں اضافہ کردیا۔ ارطغرل نے کبھی خودمختاری کا دعویٰ نہ کیا اور سلطانِ قونیہ کا وفادار رہا۔ 1288ء میں ارطغرل کی وفات پر اس کا بیٹا عثمان حکمران بنا۔
عثمان اوغوز ترکمان کی نسل کائی سے تعلق رکھتا تھا۔ عثمان کی شخصیت میں کوئی اہم اور قابلِ ذکر بات موجود تھی۔ عثمان خان سردار بننے کے بعد بھی سلطانِ قونیہ علاؤالدین کا وفا دار اور جاگیر دار رہا۔
اس نے بازنطینیوں کے قراجہ حصار کا قلعہ فتح کر لیا تو علاءالدین نے خوش ہوکر نہ صرف قراجہ حصار کا قلعہ اور اس کے نواحی مضافات عثمان کو دے دیے بلکہ اسے اپنا سِکّہ جاری کرنے اور جمعہ کے خطبہ میں اپنا نام شامل کرنے کی اجازت بھی دے دی۔ 1300ء میں سلطان علاء الدین کیقباد مارا گیا اور اس کا بیٹا غیاث الدین بھی تاتاریوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا تو دُولتِ سلجوقیہ کا خاتمہ ہوا۔ اب عثمان ایک خود مختار فرمانروا کی حیثیت سے حکومت کرنے لگا۔ عثمان نے سلطنتِ عثمانیہ کی بنیاد بورصہ میں ڈالی۔
عثمان اور اس کے حامی مسلم سرحدی محافظوں نے اس کی کمان میں بازنطینی سلطنت کو کمزور کرنا شروع کر دیا۔ عثمان کا دوسرا دٙور وہ تھا جس میں اس نے اپنے مرکز “یک” شہر سے مغربی سمت بورصہ کی جانب اور شمال کی طرف “اِزنیق” کی جانب فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا۔ ترکوں میں اتنی طاقت نہ تھی کہ وہ ان شہروں پر قبضہ کرتے۔
عثمان کا تیسرا دٙور وہ تھا جس میں وہ فوجی مہمات میں ذاتی طور پر شریک نہیں ہوتا تھا اور اس کے ساتھی ان فتوحات کے سلسلے کو آگے بڑھا رہے تھے۔ عثمان کو اپنے عہد کے آغاز میں ہی مخلص ساتھیوں کا ایک حلقہ مل گیا تھا، جن کو “اخوان الپ”(بھائیوں جیسے سپاہی) کا نام دیا گیا۔ ان میں کچھ اس کے بھائی، بھتیجے تھے اور کچھ شٙیخ ادب علی جیسے لوگ شامل تھے۔ شٙیخ ادب علی کی بیٹی مال خاتون (بعض حوالوں میں رابعہ) سے عثمان اوّل کی شادی ہوئی۔
عثمان نے بورصہ کو اپنا صدر مقام بنایا۔ آخری دٙور میں عثمان نے اپنے آپ کو اِزنیق اور بورصہ کے شدید محاصرے کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ عثمان کے اس دٙور کی عظیم کامیابی بورصہ کی فتح تھی جو اس کی موت سے کچھ عرصہ پہلے ہوئی۔ عثمان غازی 1326ء میں فوت ہوا اور بورصہ میں ہی دفن ہوا۔ عثمان کی وفات کے بعد اس کا بڑا بیٹا آرخان غازی حکمران بنا۔
“کردار” :
ارطغرل غازی اپنے فرزند عثمان کو ہرلحاظ سے پختہ اور کامل بنانا چاہتا تھا اس لیے اس کی جسمانی تربیت کے لیے تورغوت الپ، عبدالرحمن غازی، آقچہ قوجہ اور قونور آلپ جیسے عظیم جنگجوؤں کو ذمہ داریاں سونپیں اور روحانی تربیت کے لیے شیخ ادب علی سے درخواست کی۔ لہذٰا ادب علی نے عثمان کے مربّی کا کردار ادا کیا۔ عثمان بڑا بہادر، نڈر، زِیرک اور عقلمند حکمران تھا۔ رعایا کے ساتھ عدل و انصاف کرتا۔ اس کی زندگی سادہ تھی اور اس نے کبھی دولت جمع نہیں کی۔ مالِ غنیمت کو یتیموں اور غریبوں کاحصہ نکالنے کے بعد سپاہیوں میں تقسیم کردیتا تھا۔ وہ فیاض، رحم دل اور مہمان نواز تھا اور اس کی ان خوبیوں کی وجہ سے ہی ترک آج بھی اس کا نام عزت سے لیتے ہیں۔ اس کے بعد یہ رواج ہو گیا کہ جب کوئی بادشاہ تخت پر بیٹھتا تو عثمان کی تلوار اس کی کمر سے باندھی جاتی تھی اور دعا کی جاتی تھی کہ خدا اس میں بھی عثمان ہی جیسی خوبیاں پیدا کرے۔
“خواب” :
عثمان نے ایک خواب دیکھا کہ
“ایک زبردست درخت اس کے پہلو سے نمودار ہوا جو بڑھتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ اس کی شاخیں بحر و بر پر چھا گئیں۔ درخت کی جڑ سے نکل کر دنیا کے 4 بڑے دریا بہہ رہے تھے اور 4 بڑے بڑے پہاڑ اس کی شاخوں کو سنبھالے ہوئے تھے۔ اس کے بعد نہایت تیز ہوا چلی اور اس درخت کی پتیوں کا رخ ایک عظیم الشان شہر کی طرف ہو گیا۔ یہ شہر ایک ایسی جگہ واقع تھا جہاں دو سمندر اور دو براعظم ملتے تھے اور ایک انگوٹھی کی طرح دکھائی دیتا تھا۔ عثمان اس انگوٹھی کو پہننا چاہتا تھا کہ اس کی آنکھ کھل گئی”۔
عثمان کے اس خواب کو بہت اچھا سمجھا گیا اور بعد کے لوگوں نے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ 4 دریا دریائے دجلہ، دریائے فرات، دریائے نیل اور دریائے ڈینیوب تھے اور 4 پہاڑ کوہ طور، کوہ بلقان، کوہ قاف اور کوہ اطلس تھے۔ بعد میں عثمان کی اولاد کے زمانے میں چونکہ سلطنت ان دریاؤں اور پہاڑوں تک پھیل گئی تھی اس لیے یہ خواب دراصل سلطنتِ عثمانیہ کی وُسعت سے متعلق ایک پیشن گوئی تھی۔ شہر سے مطلب قسطنطنیہ کا شہر جسے عثمان تو فتح نہ کرسکا لیکن بعد ازاں فتح ہو گیا۔
عثمان کے بعد اس کی اولاد میں بڑے بڑے بادشاہ ہوئے جنھوں نے اس کے خواب کو سچا کر دکھایا۔ تاریخِ اسلام میں کسی خاندان کی حکومت اتنا عرصہ نہیں رہی جتنا عرصہ تک آلِ عثمان کی حکومت رہی اور نہ ہی کسی خاندان میں آلِ عثمان کے برابر قابل حکمران پیدا ہوئے۔
عثمان غازی کے مزار پر آج تک بدستور دن رات قرآن خوانی کا سلسلہ جاری ہے۔
ابنُ الاٙشرٙف💓