حضرت ابان رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بن سعید بن العاص ب اُمیہ
حضرت ابان رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بن سعید بن العاص بن اُمیہ :
آپ کی والدہ ہند بنت مغیرہ بن عبداللّٰہ بن عمر بن مخزوم ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ صفیہ بنت مغیرہ جو حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ بن مغیرہ کی پھوپھی تھیں۔ حضرت اٙبٙان رضی اللّٰہ تعالی عنہ اور رسولُ اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم عبدِمناف میں جا کے ملتے ہیں۔
یہ اپنے دونوں بھائیوں خالد اور عٙمٙرو کے بعد اسلام لائے اور جب وہ(انکے بھائی) اسلام لائے تو حضرت اٙبان نے کہا ؛
ترجمہ اشعار :
“کاش ظریبہ میں جو مردہ مدفون ہے وہ دیکھتا۔ ان باتوں کو جو عمرو اور خالد دین میں اِفترا کر رہے ہیں۔ ان دونوں نے عورتوں کی اطاعت کر لی اس لیے یہ دونوں ہمارے جگری دشمنوں کی مدد کرتے تھے”۔
حضرت عمرو نے اس کا یہ جواب دیا ؛
ترجمہ و تشریح اشعار :
میرا بھائی جس کی میں آبروریزی نہیں کرتا اگرچہ وہ اپنی گفتگو سے باز نہیں آتا جب اس پر اس کے بعض معاملات مشتبہ ہو جاتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ کاش وہ مردہ جو ظریبہ میں مدفون ہے زندہ ہو جاتا۔ مگر میں اس سے کہتا ہوں کہ تو اس مردہ کے ذکر کو چھوڑ دے جو اپنی راہ چلا گیا اور اس زندہ کے پاس آجاؤ جو قابلِ اعتبار ہے۔
اب ان کی مراد مردے سے ان کے والد ابو احیہ سعید بن عاص بن امیہ ہیں جو ظریبہ میں مدفون ہوئے تھے۔
ظریبہ ایک پہاڑ کا نام ہے جو طائف شہر میں واقع ہے۔
حافظ ابو عمر بن عبد البر کہتے ہیں کہ حضرت ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ حدیبیہ اور خیبر کے درمیان میں اسلام لائے۔ اور غزوہ حدیبیہ 6 ہجری میں ہوا تھا اور غزوہ خیبر محرم 7 ہجری میں ہوا۔
حافظ ابو نُعٙیم کا بیان ہے کہ وہ خیبر سے پہلے اسلام لائے اور اس میں شریک ہوئے اور یہی صحیح ہے کیوں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ابان بن سعید بن عاص کو ایک لشکر میں مدینہ سے بھیجا تھا تو ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ اور انکے ساتھی فتح خیبر کے بعد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لوٹ کے آئے اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت خیبر ہی میں تھے اور ابن مندہ نے کہا کہ پہلے ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ کے بھائی عٙمٙرو اسلام لائے اور پھر ابان بن سعید اُن کے بعد اسلام لائے۔ پھر یہ دونوں ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے۔ یہ ابن مندہ کا قول تھا، خالہ کے یہ متناقض ہے اور یہ وہم ہے کیونکہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو سب سے پہلے اسلام لائے اور حضرت ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ ان سابقین میں سے نہیں ہیں جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔
اسلام لانے کا واقعہ :
حضرت ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے رسول اللّٰہ ﷺ اور مسلمانوں کے سخت دشمن تھے۔ ان کے اسلام کا یہ سبب ہوا کہ وہ حسبِ عادت ایک مرتبہ بغرضِ تجارت شام گئے تو ان کی ایک راہب (نصرانی درویش) سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اس راہب سے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی بابت پوچھا اور کہا کہ میں ایک قریشی آدمی ہوں ایک شخص ہم میں پیدا ہوا ہے وہ یہ دعوٰی کرتا ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں، مجھے اللّٰہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے جس طرح موسٰی علیہ السلام اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کو مبعوث کیا تھا۔ راہب نے پوچھا کہ اس شخص کا نام کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ محمدﷺ!!
راہب نے کہا کہ ایک نبی پیدا ہونے والے ہیں میں ان کی علامات و صفات تم سے بیان کرتا ہوں چنانچہ اس نے وہ حالت بیان کی جو نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تھیں اور آپ کا سٙنِ ولادت اور نسب بیان کیا۔ ابان نے کہا کہ وہ ایسے ہی ہیں۔
راہب نے کہا خدا کی قسم وہ عرب پر غالب آجائیں گے پھر تمام دنیا پر غالب آجائیں گے اور اس نے ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ سے کہا کہ اس مردِ صالح سے میرا سلام کہنا۔ چنانچہ جب یہ مکہ لوٹ کے آئے تو انہوں نے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی کیفیت پوچھی اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے اور آپ کے صحابہ کی نسبت کوئی ناشائستہ کلمہ جیسے پہلے کہتے تھے نہیں کہا۔ اور یہ واقعہ حدیبیہ سے پہلے کا ہے۔ پھر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم جب حدیبیہ تشریف لے گئے اور وہاں سے لوٹے تو یہ آپ کے ساتھ ہو گئے اور اسلام لے آئے اور ان کا اسلام اچھا ہوا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے ہی حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالی عنہ کو امن دیا تھا جب کہ انہیں نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ کے دن مکہ بھیجا تھا۔ انہوں نے حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالی عنہ کو اپنا گھوڑا سواری کے لئے دیا اور کہا کہ آپ بے خوف و خطر مکہ میں جہاں چاہیں جائیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ابان بن سعید بن عاص کو مدینہ سے نجد کی طرف ایک لشکر کا سردار بنا کر بھیجا۔ چنانچہ وہ اور ان کے ساتھی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس خیبر میں لوٹ کے آئے بعد اس کے آپ خیبر کو فتح کر چکے تھے اور ان لوگوں کی سواریوں کی نکیل چھوہارے کی چالوں کی تھیں۔
حضرت ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ! ہمیں بھی خیبر کی غنیمت میں حصہ دیجئے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ان لوگوں کو نہ دیجیے۔ حضرت ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ سے کہا کہ اے “وبر” (یہ ایک جانور کا نام ہے جو قد قامت میں بلّی کے مشابہ ہوتا ہے) جو ابھی پہاڑ سے اتر کے آیا ہے تو یہ بات کہتا ہے۔
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ کو ٹال دیا اور فرمایا کہ اے ابان بیٹھو،، مگر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انہیں خیبر کی غنیمت میں حصہ نہیں دیا۔
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بحرین کا حاکم مقرر کر دیا تھا جبکہ علاء بن حضرمی کو وہاں سے معزول کر دیا چنانچہ آپ وہاں کے حاکم رہے یہاں تک کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا سے ظاہری طور پر پردہ فرما لیا۔ اس کے بعد وہ مدینہ لوٹ آئے۔ لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے چاہا کہ انہیں پھر وہاں واپس بھیج دیں مگر انہوں نے کہا کہ میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا کام نہیں کروں گا اور بعض لوگوں کا بیان ہے کہ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ تعالی عنہ کی طرف سے یمن کے بعض اضلاع کی حکومت قبول کرلی تھی۔ واللّٰہ اعلم۔
آپ کے والد کی کنیت ابو احیحہ تھی ان کا ایک لڑکا تھا احیحہ جو جنگ فُجار میں مقتول ہوا اور ایک بیٹا ان کا عاص جنگِ بدر میں بحالت کفر مقتول ہوا۔ اسے حضرت علی رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے قتل کیا تھا۔ اور ایک اور بیٹا عبیدہ بھی جنگِ بدر میں بحالتِ کفر مقتول ہوا۔ اسے حضرت زبیر رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے قتل کیا تھا۔ اور ان کے پانچ بیٹے اسلام لائے اور وہ پانچوں رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیضیاب ہوئے اور ان میں سے کسی کی اولاد نہیں ہوئی سوائے عاص بن سعید کے۔ صرف اُنہی سے اولاد ہے۔ اور اُنہِیں عاص کی اولاد میں سے ہیں سعید بن عاص بن سعید بن عاص بن امیہ۔!!
جن کو حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے مدینہ کا عُمّال بنایا تھا۔ اور یہ سعید والد ہیں عمرو اشدق کے جن کو عبدالملک بن مروان نے قتل کیا تھا۔
اور ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ بھی انہی لوگوں میں سے ایک شخص تھے جنہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالی عنہ کی بیعت میں توقف کیا تھا کہ دیکھیں بنی ہاشم کیا کر رہے ہیں۔ پھر جب بنی ہاشم نے حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ تعالی عنہ سے بیعت کرلی تو انہوں نے بھی بیعت کر لی۔
آپ رضی اللّٰہ عنہ کی وفات کے وقت میں اختلاف ہے۔
ابنِ اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت ابان اور عٙمٙرو جو دونوں سعید کے بیٹے ہیں جنگِ یرموک میں شہید ہوئے مگر کسی اور مورخ نے اس کی موافقت نہیں کی۔ اور جنگِ یرموک ملکِ شام میں پانچویں رجب سن 15ھ کو حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالی عنہ کی خلافت میں ہوئی تھی۔ اور موسٰی بن عُقبہ کہتے ہیں کہ حضرت ابان جنگ اٙجنادین میں شہید ہوئے۔ اور یہی قول حضرت مصعب اور حضرت زبیر رضی اللّٰہ عنھما کا اور اکثر اہلِ نسب کا اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ جنگ مرج الصفر میں دمشق کے پاس شہید ہوئے۔
واقعہ اجنادین جمادی الاُولیٰ سنہ ١٢ھ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالی عنہ کی خلافت میں ان کی وفات سے کچھ پہلے ہوا تھا اور واقعہ مرج الصفر ١۴ھ شروعِ خلافت حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالی عنہ میں ہوا تھا۔ پھر جنگِ یرموک ہوئی اس کے بعد اجنادین ہوئی۔ اور اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ یہ اوقات باہم ایک دوسرے سے قریب ہیں۔ اور زھری کہتے ہیں کہ ابان بن عاص رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالی عنہ کا مصحفِ زید بن ثابت پر بحکم حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالی عنہ اِملاء کیا تھا اور اسی بات کی تائید ان لوگوں کا قول کرتا ہے جو کہتے ہیں کہ ان کی وفات سن ٢٩ھ میں ہوئی۔
حضرت ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ کے حالات میں مروی ہے کہ ایک روز انہوں نے خطبہ پڑھا اس میں بیان کیا کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے زمانہ جاہلیت کے تمام خون معاف کردیئے ہیں۔
(اُسدُ الغابہ، سیّر الصحابہ)
۔۔۔۔ابن الاشرف۔۔۔۔
حضرت ابان رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بن سعید بن العاص بن اُمیہ :
آپ کی والدہ ہند بنت مغیرہ بن عبداللّٰہ بن عمر بن مخزوم ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ صفیہ بنت مغیرہ جو حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ بن مغیرہ کی پھوپھی تھیں۔ حضرت اٙبٙان رضی اللّٰہ تعالی عنہ اور رسولُ اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم عبدِمناف میں جا کے ملتے ہیں۔
یہ اپنے دونوں بھائیوں خالد اور عٙمٙرو کے بعد اسلام لائے اور جب وہ(انکے بھائی) اسلام لائے تو حضرت اٙبان نے کہا ؛
ترجمہ اشعار :
“کاش ظریبہ میں جو مردہ مدفون ہے وہ دیکھتا۔ ان باتوں کو جو عمرو اور خالد دین میں اِفترا کر رہے ہیں۔ ان دونوں نے عورتوں کی اطاعت کر لی اس لیے یہ دونوں ہمارے جگری دشمنوں کی مدد کرتے تھے”۔
حضرت عمرو نے اس کا یہ جواب دیا ؛
ترجمہ و تشریح اشعار :
میرا بھائی جس کی میں آبروریزی نہیں کرتا اگرچہ وہ اپنی گفتگو سے باز نہیں آتا جب اس پر اس کے بعض معاملات مشتبہ ہو جاتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ کاش وہ مردہ جو ظریبہ میں مدفون ہے زندہ ہو جاتا۔ مگر میں اس سے کہتا ہوں کہ تو اس مردہ کے ذکر کو چھوڑ دے جو اپنی راہ چلا گیا اور اس زندہ کے پاس آجاؤ جو قابلِ اعتبار ہے۔
اب ان کی مراد مردے سے ان کے والد ابو احیہ سعید بن عاص بن امیہ ہیں جو ظریبہ میں مدفون ہوئے تھے۔
ظریبہ ایک پہاڑ کا نام ہے جو طائف شہر میں واقع ہے۔
حافظ ابو عمر بن عبد البر کہتے ہیں کہ حضرت ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ حدیبیہ اور خیبر کے درمیان میں اسلام لائے۔ اور غزوہ حدیبیہ 6 ہجری میں ہوا تھا اور غزوہ خیبر محرم 7 ہجری میں ہوا۔
حافظ ابو نُعٙیم کا بیان ہے کہ وہ خیبر سے پہلے اسلام لائے اور اس میں شریک ہوئے اور یہی صحیح ہے کیوں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ابان بن سعید بن عاص کو ایک لشکر میں مدینہ سے بھیجا تھا تو ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ اور انکے ساتھی فتح خیبر کے بعد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لوٹ کے آئے اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت خیبر ہی میں تھے اور ابن مندہ نے کہا کہ پہلے ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ کے بھائی عٙمٙرو اسلام لائے اور پھر ابان بن سعید اُن کے بعد اسلام لائے۔ پھر یہ دونوں ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے۔ یہ ابن مندہ کا قول تھا، خالہ کے یہ متناقض ہے اور یہ وہم ہے کیونکہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو سب سے پہلے اسلام لائے اور حضرت ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ ان سابقین میں سے نہیں ہیں جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔
اسلام لانے کا واقعہ :
حضرت ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے رسول اللّٰہ ﷺ اور مسلمانوں کے سخت دشمن تھے۔ ان کے اسلام کا یہ سبب ہوا کہ وہ حسبِ عادت ایک مرتبہ بغرضِ تجارت شام گئے تو ان کی ایک راہب (نصرانی درویش) سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اس راہب سے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی بابت پوچھا اور کہا کہ میں ایک قریشی آدمی ہوں ایک شخص ہم میں پیدا ہوا ہے وہ یہ دعوٰی کرتا ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں، مجھے اللّٰہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے جس طرح موسٰی علیہ السلام اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کو مبعوث کیا تھا۔ راہب نے پوچھا کہ اس شخص کا نام کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ محمدﷺ!!
راہب نے کہا کہ ایک نبی پیدا ہونے والے ہیں میں ان کی علامات و صفات تم سے بیان کرتا ہوں چنانچہ اس نے وہ حالت بیان کی جو نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تھیں اور آپ کا سٙنِ ولادت اور نسب بیان کیا۔ ابان نے کہا کہ وہ ایسے ہی ہیں۔
راہب نے کہا خدا کی قسم وہ عرب پر غالب آجائیں گے پھر تمام دنیا پر غالب آجائیں گے اور اس نے ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ سے کہا کہ اس مردِ صالح سے میرا سلام کہنا۔ چنانچہ جب یہ مکہ لوٹ کے آئے تو انہوں نے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی کیفیت پوچھی اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے اور آپ کے صحابہ کی نسبت کوئی ناشائستہ کلمہ جیسے پہلے کہتے تھے نہیں کہا۔ اور یہ واقعہ حدیبیہ سے پہلے کا ہے۔ پھر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم جب حدیبیہ تشریف لے گئے اور وہاں سے لوٹے تو یہ آپ کے ساتھ ہو گئے اور اسلام لے آئے اور ان کا اسلام اچھا ہوا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے ہی حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالی عنہ کو امن دیا تھا جب کہ انہیں نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ کے دن مکہ بھیجا تھا۔ انہوں نے حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالی عنہ کو اپنا گھوڑا سواری کے لئے دیا اور کہا کہ آپ بے خوف و خطر مکہ میں جہاں چاہیں جائیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ابان بن سعید بن عاص کو مدینہ سے نجد کی طرف ایک لشکر کا سردار بنا کر بھیجا۔ چنانچہ وہ اور ان کے ساتھی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس خیبر میں لوٹ کے آئے بعد اس کے آپ خیبر کو فتح کر چکے تھے اور ان لوگوں کی سواریوں کی نکیل چھوہارے کی چالوں کی تھیں۔
حضرت ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ! ہمیں بھی خیبر کی غنیمت میں حصہ دیجئے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ان لوگوں کو نہ دیجیے۔ حضرت ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ سے کہا کہ اے “وبر” (یہ ایک جانور کا نام ہے جو قد قامت میں بلّی کے مشابہ ہوتا ہے) جو ابھی پہاڑ سے اتر کے آیا ہے تو یہ بات کہتا ہے۔
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ کو ٹال دیا اور فرمایا کہ اے ابان بیٹھو،، مگر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انہیں خیبر کی غنیمت میں حصہ نہیں دیا۔
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بحرین کا حاکم مقرر کر دیا تھا جبکہ علاء بن حضرمی کو وہاں سے معزول کر دیا چنانچہ آپ وہاں کے حاکم رہے یہاں تک کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا سے ظاہری طور پر پردہ فرما لیا۔ اس کے بعد وہ مدینہ لوٹ آئے۔ لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے چاہا کہ انہیں پھر وہاں واپس بھیج دیں مگر انہوں نے کہا کہ میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا کام نہیں کروں گا اور بعض لوگوں کا بیان ہے کہ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ تعالی عنہ کی طرف سے یمن کے بعض اضلاع کی حکومت قبول کرلی تھی۔ واللّٰہ اعلم۔
آپ کے والد کی کنیت ابو احیحہ تھی ان کا ایک لڑکا تھا احیحہ جو جنگ فُجار میں مقتول ہوا اور ایک بیٹا ان کا عاص جنگِ بدر میں بحالت کفر مقتول ہوا۔ اسے حضرت علی رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے قتل کیا تھا۔ اور ایک اور بیٹا عبیدہ بھی جنگِ بدر میں بحالتِ کفر مقتول ہوا۔ اسے حضرت زبیر رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے قتل کیا تھا۔ اور ان کے پانچ بیٹے اسلام لائے اور وہ پانچوں رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیضیاب ہوئے اور ان میں سے کسی کی اولاد نہیں ہوئی سوائے عاص بن سعید کے۔ صرف اُنہی سے اولاد ہے۔ اور اُنہِیں عاص کی اولاد میں سے ہیں سعید بن عاص بن سعید بن عاص بن امیہ۔!!
جن کو حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے مدینہ کا عُمّال بنایا تھا۔ اور یہ سعید والد ہیں عمرو اشدق کے جن کو عبدالملک بن مروان نے قتل کیا تھا۔
اور ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ بھی انہی لوگوں میں سے ایک شخص تھے جنہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالی عنہ کی بیعت میں توقف کیا تھا کہ دیکھیں بنی ہاشم کیا کر رہے ہیں۔ پھر جب بنی ہاشم نے حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ تعالی عنہ سے بیعت کرلی تو انہوں نے بھی بیعت کر لی۔
آپ رضی اللّٰہ عنہ کی وفات کے وقت میں اختلاف ہے۔
ابنِ اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت ابان اور عٙمٙرو جو دونوں سعید کے بیٹے ہیں جنگِ یرموک میں شہید ہوئے مگر کسی اور مورخ نے اس کی موافقت نہیں کی۔ اور جنگِ یرموک ملکِ شام میں پانچویں رجب سن 15ھ کو حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالی عنہ کی خلافت میں ہوئی تھی۔ اور موسٰی بن عُقبہ کہتے ہیں کہ حضرت ابان جنگ اٙجنادین میں شہید ہوئے۔ اور یہی قول حضرت مصعب اور حضرت زبیر رضی اللّٰہ عنھما کا اور اکثر اہلِ نسب کا اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ جنگ مرج الصفر میں دمشق کے پاس شہید ہوئے۔
واقعہ اجنادین جمادی الاُولیٰ سنہ ١٢ھ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالی عنہ کی خلافت میں ان کی وفات سے کچھ پہلے ہوا تھا اور واقعہ مرج الصفر ١۴ھ شروعِ خلافت حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالی عنہ میں ہوا تھا۔ پھر جنگِ یرموک ہوئی اس کے بعد اجنادین ہوئی۔ اور اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ یہ اوقات باہم ایک دوسرے سے قریب ہیں۔ اور زھری کہتے ہیں کہ ابان بن عاص رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالی عنہ کا مصحفِ زید بن ثابت پر بحکم حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالی عنہ اِملاء کیا تھا اور اسی بات کی تائید ان لوگوں کا قول کرتا ہے جو کہتے ہیں کہ ان کی وفات سن ٢٩ھ میں ہوئی۔
حضرت ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ کے حالات میں مروی ہے کہ ایک روز انہوں نے خطبہ پڑھا اس میں بیان کیا کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے زمانہ جاہلیت کے تمام خون معاف کردیئے ہیں۔
(اُسدُ الغابہ، سیّر الصحابہ)
۔۔۔۔ابن الاشرف۔۔۔۔
آپ کی والدہ ہند بنت مغیرہ بن عبداللّٰہ بن عمر بن مخزوم ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ صفیہ بنت مغیرہ جو حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ بن مغیرہ کی پھوپھی تھیں۔ حضرت اٙبٙان رضی اللّٰہ تعالی عنہ اور رسولُ اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم عبدِمناف میں جا کے ملتے ہیں۔
یہ اپنے دونوں بھائیوں خالد اور عٙمٙرو کے بعد اسلام لائے اور جب وہ(انکے بھائی) اسلام لائے تو حضرت اٙبان نے کہا ؛
ترجمہ اشعار :
“کاش ظریبہ میں جو مردہ مدفون ہے وہ دیکھتا۔ ان باتوں کو جو عمرو اور خالد دین میں اِفترا کر رہے ہیں۔ ان دونوں نے عورتوں کی اطاعت کر لی اس لیے یہ دونوں ہمارے جگری دشمنوں کی مدد کرتے تھے”۔
حضرت عمرو نے اس کا یہ جواب دیا ؛
ترجمہ و تشریح اشعار :
میرا بھائی جس کی میں آبروریزی نہیں کرتا اگرچہ وہ اپنی گفتگو سے باز نہیں آتا جب اس پر اس کے بعض معاملات مشتبہ ہو جاتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ کاش وہ مردہ جو ظریبہ میں مدفون ہے زندہ ہو جاتا۔ مگر میں اس سے کہتا ہوں کہ تو اس مردہ کے ذکر کو چھوڑ دے جو اپنی راہ چلا گیا اور اس زندہ کے پاس آجاؤ جو قابلِ اعتبار ہے۔
اب ان کی مراد مردے سے ان کے والد ابو احیہ سعید بن عاص بن امیہ ہیں جو ظریبہ میں مدفون ہوئے تھے۔
ظریبہ ایک پہاڑ کا نام ہے جو طائف شہر میں واقع ہے۔
حافظ ابو عمر بن عبد البر کہتے ہیں کہ حضرت ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ حدیبیہ اور خیبر کے درمیان میں اسلام لائے۔ اور غزوہ حدیبیہ 6 ہجری میں ہوا تھا اور غزوہ خیبر محرم 7 ہجری میں ہوا۔
حافظ ابو نُعٙیم کا بیان ہے کہ وہ خیبر سے پہلے اسلام لائے اور اس میں شریک ہوئے اور یہی صحیح ہے کیوں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ابان بن سعید بن عاص کو ایک لشکر میں مدینہ سے بھیجا تھا تو ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ اور انکے ساتھی فتح خیبر کے بعد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لوٹ کے آئے اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت خیبر ہی میں تھے اور ابن مندہ نے کہا کہ پہلے ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ کے بھائی عٙمٙرو اسلام لائے اور پھر ابان بن سعید اُن کے بعد اسلام لائے۔ پھر یہ دونوں ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے۔ یہ ابن مندہ کا قول تھا، خالہ کے یہ متناقض ہے اور یہ وہم ہے کیونکہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو سب سے پہلے اسلام لائے اور حضرت ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ ان سابقین میں سے نہیں ہیں جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔
اسلام لانے کا واقعہ :
حضرت ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے رسول اللّٰہ ﷺ اور مسلمانوں کے سخت دشمن تھے۔ ان کے اسلام کا یہ سبب ہوا کہ وہ حسبِ عادت ایک مرتبہ بغرضِ تجارت شام گئے تو ان کی ایک راہب (نصرانی درویش) سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اس راہب سے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی بابت پوچھا اور کہا کہ میں ایک قریشی آدمی ہوں ایک شخص ہم میں پیدا ہوا ہے وہ یہ دعوٰی کرتا ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں، مجھے اللّٰہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے جس طرح موسٰی علیہ السلام اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کو مبعوث کیا تھا۔ راہب نے پوچھا کہ اس شخص کا نام کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ محمدﷺ!!
راہب نے کہا کہ ایک نبی پیدا ہونے والے ہیں میں ان کی علامات و صفات تم سے بیان کرتا ہوں چنانچہ اس نے وہ حالت بیان کی جو نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تھیں اور آپ کا سٙنِ ولادت اور نسب بیان کیا۔ ابان نے کہا کہ وہ ایسے ہی ہیں۔
راہب نے کہا خدا کی قسم وہ عرب پر غالب آجائیں گے پھر تمام دنیا پر غالب آجائیں گے اور اس نے ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ سے کہا کہ اس مردِ صالح سے میرا سلام کہنا۔ چنانچہ جب یہ مکہ لوٹ کے آئے تو انہوں نے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی کیفیت پوچھی اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے اور آپ کے صحابہ کی نسبت کوئی ناشائستہ کلمہ جیسے پہلے کہتے تھے نہیں کہا۔ اور یہ واقعہ حدیبیہ سے پہلے کا ہے۔ پھر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم جب حدیبیہ تشریف لے گئے اور وہاں سے لوٹے تو یہ آپ کے ساتھ ہو گئے اور اسلام لے آئے اور ان کا اسلام اچھا ہوا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے ہی حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالی عنہ کو امن دیا تھا جب کہ انہیں نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ کے دن مکہ بھیجا تھا۔ انہوں نے حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالی عنہ کو اپنا گھوڑا سواری کے لئے دیا اور کہا کہ آپ بے خوف و خطر مکہ میں جہاں چاہیں جائیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ابان بن سعید بن عاص کو مدینہ سے نجد کی طرف ایک لشکر کا سردار بنا کر بھیجا۔ چنانچہ وہ اور ان کے ساتھی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس خیبر میں لوٹ کے آئے بعد اس کے آپ خیبر کو فتح کر چکے تھے اور ان لوگوں کی سواریوں کی نکیل چھوہارے کی چالوں کی تھیں۔
حضرت ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ! ہمیں بھی خیبر کی غنیمت میں حصہ دیجئے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ان لوگوں کو نہ دیجیے۔ حضرت ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ سے کہا کہ اے “وبر” (یہ ایک جانور کا نام ہے جو قد قامت میں بلّی کے مشابہ ہوتا ہے) جو ابھی پہاڑ سے اتر کے آیا ہے تو یہ بات کہتا ہے۔
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حضرت ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ کو ٹال دیا اور فرمایا کہ اے ابان بیٹھو،، مگر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انہیں خیبر کی غنیمت میں حصہ نہیں دیا۔
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بحرین کا حاکم مقرر کر دیا تھا جبکہ علاء بن حضرمی کو وہاں سے معزول کر دیا چنانچہ آپ وہاں کے حاکم رہے یہاں تک کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا سے ظاہری طور پر پردہ فرما لیا۔ اس کے بعد وہ مدینہ لوٹ آئے۔ لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے چاہا کہ انہیں پھر وہاں واپس بھیج دیں مگر انہوں نے کہا کہ میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا کام نہیں کروں گا اور بعض لوگوں کا بیان ہے کہ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ تعالی عنہ کی طرف سے یمن کے بعض اضلاع کی حکومت قبول کرلی تھی۔ واللّٰہ اعلم۔
آپ کے والد کی کنیت ابو احیحہ تھی ان کا ایک لڑکا تھا احیحہ جو جنگ فُجار میں مقتول ہوا اور ایک بیٹا ان کا عاص جنگِ بدر میں بحالت کفر مقتول ہوا۔ اسے حضرت علی رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے قتل کیا تھا۔ اور ایک اور بیٹا عبیدہ بھی جنگِ بدر میں بحالتِ کفر مقتول ہوا۔ اسے حضرت زبیر رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے قتل کیا تھا۔ اور ان کے پانچ بیٹے اسلام لائے اور وہ پانچوں رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیضیاب ہوئے اور ان میں سے کسی کی اولاد نہیں ہوئی سوائے عاص بن سعید کے۔ صرف اُنہی سے اولاد ہے۔ اور اُنہِیں عاص کی اولاد میں سے ہیں سعید بن عاص بن سعید بن عاص بن امیہ۔!!
جن کو حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے مدینہ کا عُمّال بنایا تھا۔ اور یہ سعید والد ہیں عمرو اشدق کے جن کو عبدالملک بن مروان نے قتل کیا تھا۔
اور ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ بھی انہی لوگوں میں سے ایک شخص تھے جنہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالی عنہ کی بیعت میں توقف کیا تھا کہ دیکھیں بنی ہاشم کیا کر رہے ہیں۔ پھر جب بنی ہاشم نے حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ تعالی عنہ سے بیعت کرلی تو انہوں نے بھی بیعت کر لی۔
آپ رضی اللّٰہ عنہ کی وفات کے وقت میں اختلاف ہے۔
ابنِ اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت ابان اور عٙمٙرو جو دونوں سعید کے بیٹے ہیں جنگِ یرموک میں شہید ہوئے مگر کسی اور مورخ نے اس کی موافقت نہیں کی۔ اور جنگِ یرموک ملکِ شام میں پانچویں رجب سن 15ھ کو حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالی عنہ کی خلافت میں ہوئی تھی۔ اور موسٰی بن عُقبہ کہتے ہیں کہ حضرت ابان جنگ اٙجنادین میں شہید ہوئے۔ اور یہی قول حضرت مصعب اور حضرت زبیر رضی اللّٰہ عنھما کا اور اکثر اہلِ نسب کا اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ جنگ مرج الصفر میں دمشق کے پاس شہید ہوئے۔
واقعہ اجنادین جمادی الاُولیٰ سنہ ١٢ھ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالی عنہ کی خلافت میں ان کی وفات سے کچھ پہلے ہوا تھا اور واقعہ مرج الصفر ١۴ھ شروعِ خلافت حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالی عنہ میں ہوا تھا۔ پھر جنگِ یرموک ہوئی اس کے بعد اجنادین ہوئی۔ اور اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ یہ اوقات باہم ایک دوسرے سے قریب ہیں۔ اور زھری کہتے ہیں کہ ابان بن عاص رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالی عنہ کا مصحفِ زید بن ثابت پر بحکم حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالی عنہ اِملاء کیا تھا اور اسی بات کی تائید ان لوگوں کا قول کرتا ہے جو کہتے ہیں کہ ان کی وفات سن ٢٩ھ میں ہوئی۔
حضرت ابان رضی اللّٰہ تعالی عنہ کے حالات میں مروی ہے کہ ایک روز انہوں نے خطبہ پڑھا اس میں بیان کیا کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے زمانہ جاہلیت کے تمام خون معاف کردیئے ہیں۔
(اُسدُ الغابہ، سیّر الصحابہ)
۔۔۔۔ابن الاشرف۔۔۔۔