میثاق لکھنؤ
دسمبر 1916ء
میثاق لکھنؤ
منٹومورلے اسکیم میں مسلمانوں کو جداگانہ انتخاب کا حق ملنے کی وجہ سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو کشیدگی پیدا ہو گئی تھی، اسے رفع کرنے کے لئے پہلی مرتبہ سر ولیم ویڈربرن کی ہدایت پر (جو کانگریس کے اجلاس الٰہ آباد (1910) کے صدر تھے) الٰہ آباد میں ہندو اور مسلمان لیڈروں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔
مسٹر جناح اس سلسلے میں بڑے سرگرم تھے کہ دونوں قومیں ( ہندو اور مسلمان ) کسی ایک نقطۂ نظر پر متفق ہوں۔ لیکن بعض وجوہ کی بنا پر یہ کانفرنس ناکام ہوگئی۔ بہر حال اس کانفرنس کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ آئندہ کے لئے دونوں بڑی قوموں میں اتحاد کے لئے راہ ہموار ہو گئی۔
کچھ ہی عرصے میں کانگریس محسوس کرنے لگی کہ سیاسی اعتبار سے مسلم لیگ اور کانگریس میں کوئی فرق یا بُعد نہیں ہے۔
ہندو مسلم اتحاد کی تحریک پھر زور پکڑنے لگی ۔ کانگریس میں مسٹر جناح تھے جو کانگریسی لیڈروں کو ہندو مسلم اتحاد کی ضرورت اور اہمیت کا احساس دلا رہے تھے۔
ان میں مسٹر گوکھلے جو ہندو لیڈروں میں زیادہ سمجھدار تھے، نے واضح الفاظ میں اس کا اعتراف کیا۔
“بڑے ہی سچے مادے سے ان کا خمیر ہوا ہے اور ان کا ہر قسم کے فرقہ وارانہ تعصب سے بری ہونا ان کو ہندو مسلم اتحاد کا بہترین سفیر بنائے گا۔“
اسی زمانے میں مسٹر جناح نے ہندوستان کے مشترکہ امور میں اتنی خدمات انجام دیں کہ ہندو پریس بھی ان کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکا۔ اپریل 1913ء میں مسٹر جناح مسٹر گوکھلے کے ساتھ یورپ گئے ۔ جہاں مسٹر محمد علی ( ایڈیٹر کامریڈ ) کی تحریک پر مسٹر جناح با ضابطہ طور پر مسلم لیگ کے رکن بن گئے۔
دونوں سیاسی جماعتوں میں اس بات کی ممانعت نہ تھی کہ ایک شخص دونوں جماعتوں کا رکن رہے۔ اس طرح مسٹر جناح کے لئے ہندو مسلم اتحاد کے لئے کوششیں زیادہ آسان ہو گئیں۔
27 دسمبر 1913 ء کو آل انڈیا نیشنل کانگریس کا سالانہ اجلاس کراچی میں ہوا۔ جس میں بھوپندر ناتھ باسو نے مسلم لیگ کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا کہ مسلم لیگ نے دوسرے فِرقوں کے ساتھ تعاون کی ضرورت کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ
“اگر ماضی میں اس کے متعلق کوئی غلط فہمی تھی تو ہم کو چاہیے کہ اس کو بھول جائیں۔ مستقبل کا ہندوستان زیادہ طاقتور ہوگا ۔ زیادہ شریف اور زیادہ عظیم ہو گا۔”
اس زمانے میں مسٹر جناح نے ہندو مسلم اتحاد کے لئے زیادہ توجہ کے ساتھ تدابیر اختیار کیں۔ اس سال کانگریس کا اجلاس بمبئی میں ہو رہا تھا۔ مسٹر جناح نے مسلم لیگ کو بھی دعوت دی کہ وہ اپنا اجلاس بمبئی میں کرے۔ مسلم لیگ کی کونسل نے یہ تجویز قبول کر لی لیکن مسلمانوں کے بعض گروہ ، غلام نبی کی وجہ سے اس کے مخالف تھے اور حکومت کو بھی یہ بات پسند نہ تھی۔ چنانچہ یہ افواہ اڑائی گئی کہ مسلم لیگ کو کانگریس میں ضم کیا جارہا ہے۔
اجلاس کے دوران بھی ہنگامہ آرائی رہی چنانچہ دوسرے روز کی کاروائی جاری نہ رکھی جا سکی اور اجلاس ملتوی کر دیا گیا ۔ البتہ مسلم لیگ نے اپنے اجلاس کی تکمیل تاج محل ہوٹل میں کی۔
مسلم لیگ کے بقیہ اجلاس میں مسٹر جناح نے ایک ریزولیوشن پیش کیا جس میں کہا کہ ایک کمیٹی مقرر کی جائے جو دوسری سیاسی انجمنوں کے مشورے سے آئینی اصلاحات کی ایک سکیم مرتب کرے اور اس میں مسلمانوں کی خصوصی ضروریات اور مفاد کا لحاظ کیا جائے۔ اس کے جواب میں کانگریس نے اپنی کمیٹی کو ہدایت کی کہ مسلم لیگ کے مشورے سے سیلف گورنمنٹ کی سکیم مرتب کرے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ کانگریس اور مسلم لیگ آئینی اصلاحات کی کوئی متفقہ سکیم حکومتِ برطانیہ کو پیش کریں۔ اس طرح دونوں کمیٹیوں کے آپس میں صلاح مشورے ہونے لگے اور مستقبل کے لئے آئینی اصلاحات کی ایک سکیم مرتب ہوئی۔ مسلم لیگ اور کانگریس کے اجلاس ایک مرتبہ پھر دسمبر 1916ء میں ایک ہی جگہ لکھنؤ میں منعقد ہوئے۔
محمد علی جناح مسلم لیگ کے صدر تھے اور کانگریس کے اجلاس کی صدارت اے سی مجمدار نے کی اور آئینی اصلاحات کی سکیم جو دونوں کمیٹیوں نے باہمی مشورے سے مرتب کی تھی۔ اپنے اپنے سالانہ اجلاس میں دونوں انجمنوں نے منظور کی اور پھر یہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مشترکہ مطالبے کی حیثیت سے حکومتِ برطانیہ کے سامنے پیش کی گئی۔
یہ ایک ایسے معاہدے کی منظوری تھی جو مسلمانانِ برصغیر کے سیاسی سفر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس معاہدے کو میثاقِ لکھنؤ کا نام دیا گیا۔
اس معاہدے کے تحت مسلمانوں نے ہندوؤں سے اپنے لئے جدا گانہ انتخاب کا حق منوا لیا۔ میثاقِ لکھنؤ کا دوسرا اہم نکتہ یہ تھا کہ ہندو اور مسلمان جن جن صوبوں میں اقلیت میں تھے وہاں انہیں آبادی کے تناسب سے زیادہ نمائندگی دی گئی۔
میثاقِ لکھنؤ میں یہ بھی طے ہوا کہ آبادی کے کسی بھی طبقے سے متعلق کوئی بل یا قرارداد اس صورت میں کسی بھی کونسل میں پیش نہیں کی جائے گی اگر اس طبقے کی نمائندگی کرنے والے تین چوتھائی ارکان اس کے مخالف ہوں۔
میثاقِ لکھنؤ معاملہ فہمی اور بدگمان فریقوں کے درمیان افہام و تفہیم کا ایسا شاہکار تھا جو صرف ایک ہی دفعہ ظہور میں آسکا۔
(ابن الاشرف 💓)