پہلی جنگ عظیم
یکم اگست 1914ء
پہلی جنگ عظیم
1914ء کے آغاز میں تمام یورپی ممالک اپنے آپ کو مسلّح کر رہے تھے اور یورپ ایک بڑی جنگ کی زَد میں تھا۔ برطانیہ میں اِس تجویز کا زبردست خیر مقدم کیا گیا جس کے مطابق زیادہ سے زیادہ جہاز بنائے جائیں گے۔
ونسٹن چرچل فرسٹ لارڈ آف ایڈمرلٹی نے ایوانِ عام میں جرمنی کے پانچ اسکواڈرن کے مقابلے میں آٹھ اسکواڈرن تیار کرنے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن پارٹی کے ایک عہدے دار نے اعتراض لگاتے ہوئے کہا کہ چرچل کا رویہ ملک اور دنیا کے امن کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔
سارے یورپ میں اس وقت سنسنی پھیل گئی جب 28 جون 1914ء کو سربیا کے ایک قوم پرست نے آسٹریا ہنگری کے تخت کے جانشین آرڈ ڈیوک فرازنز فرڈیننڈ اور اس کی بیوی کو گولی ماردی۔ گولی اس وقت ماری گئی جب ان کی گاڑی بوسنیا کے شہر راجیو کی گلیوں میں سے گزر رہی تھی۔
(بوسینا آسٹریا ہنگری کی سلطنت کا حصہ تھا) انیس سالہ قاتل نے اپنی مستقل سے سات فائر کئے۔ ایک گولی ڈچز کے پیٹ میں پیوست ہوگئی دوسری آرچ ڈیوک کی گردن میں لگی، جس سے اس کی فوری موت واقع ہوگئی۔ ڈچز راستے میں دم توڑ گئی۔
رپورٹ کے مطابق قاتل کو کوئی پشیمانی نہیں۔ اُس نے جج کو بتایا کہ اُس نے سربوں پر ہونے والے ظلم کا انتقام لیا۔
اس واقع سے چند دن پہلے بھی آرڈ ڈیوک کو قتل کرنے کی اس وقت کوشش کی گئی تھی جب اس کی گاڑی میں بم پھینکا گیا تھا۔ آرچ ڈیوک نے ہوشمندی سے کام لیتے ہوئے ہم کو پھٹنے سے پہلے گلی میں پھینک دیا تھا۔ آرچ ڈیوک کو اس سے قبل خراب حالات کے پیش نظر بوسنیا نہ جانے کا مشورہ دیا گیا تھا لیکن آرچ ڈیوک مخالف دھڑوں کے درمیان کوئی مصالحانہ راستہ تلاش کرنا چاہ رہا تھا۔ جس کا نتیجہ موت کی صورت میں سامنے آیا۔ آرچ ڈیوک کی ہلاکت سے تمام یورپ میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔
سربیا کے نوجوان قوم پرست نے آرچ ڈیوک فرڈیننڈ پر سراجیو میں پہلی گولی چلائی تو بلاشبہ یہ گولی یورپ میں لڑی جانے والی جنگ کی پہلی گولی ثابت ہوئی۔
آرچ ڈیوک اور اس بیوی کے قتل نے یورپ میں امن کا توازن بگاڑ دیا اور براعظم جنگ کی آگ میں سلگنے لگا تمام ممالک میں جنگی جنون سوار تھا۔
اسلحہ کی اس دوڑ میں جرمنی سب سے آگے تھا۔ جس کا دفاعی بجٹ پچاس فیصد بڑھ گیا تھا اس نے پچھلے سال 1.4 بلین مارک دفاع پر خرچ کئے۔ بجٹ میں 2.24 بلین مارک کا اضافہ ہوا جرمنی اس دوڑ میں واحد ملک نہیں تھا۔ روس 1.8 بلین روبل خرچ کر رہا تھا اور فرانس اور برطانیہ بھی کسی طرح پیچھے نہیں تھے۔ روس اور جرمنی کی دوستی ختم ہو چکی تھی اور بلقان مسئلے پر روس اور آسٹریا کی کشمکش عروج پر تھی۔
دونوں ممالک اس جگہ پر اپنے اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے تھے۔ روس کو ڈر تھا کہ آسٹریا آرچ ڈیوک کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے سربیا پر حملہ کر دے گا اور بلقان پر اپنی پوزیشن مضبوط کرے گا۔جرمنی بلقان کے مسئلے پر آسٹریا کی پشت پناہی کر رہا تھا۔
کیسر ولیم نے ویانا میں اپنے سفیر کو لکھا کہ اب سربوں کا قصہ پاک ہو جانا چاہئے ۔ آسٹریا نے سربیا کو الٹی میٹم بھیجا تھا کہ وہ قتل کی تفتیش میں آسٹریا کی پولیس کی مدد کرے جو بالآخر سربیا کو ماننا پڑا۔
جرمنی کو خطرہ تھا کہ جنگی تیاریاں مکمل ہونے کے بعد روس 1916ء میں جرمنی پر حملہ کر دے گا۔ روس اور فرانس میں 20 سال سے اتحاد ہے اور فرانس جرمنی سے اپنے علاقے بازیاب کرانا چاہتا تھا۔
جرمنی نے اِس خدشے کے پیش نظر کہ بیلجیم فرانس سے تعاون نہ کرے، بیلجیم کوالٹی میٹم بھیجا کہ وہ جرمنی کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دے ورنہ جنگ کے لئے تیار رہے۔ بیلجیم نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ نتیجتاً 2 اگست کو جرمنی نے بیلجیم کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے ہوئے اس پر بھی حملہ کر دیا۔ بیلجیم کے شاہ البرٹ نے برطانیہ کے شاہ جارج کو مدد کی اپیل کی۔ برطانیہ نے جرمنی کو الٹی میٹم بھیجا کہ وہ بیلجیم کی غیر جانبدارانہ حیثیت کو تسلیم کرے ورنہ برطانیہ جنگ میں کود پڑے گا۔ اس طرح برطانیہ بھی جنگ میں شریک ہو گیا۔
بیلجیم کی فوج نے برطانیہ اور فرانس کی مدد سے جرمنوں کا بہادری سے مقابلہ کیا اور 6 اگست کو ایمسٹرڈم میں بیلجیم دستوں نے جرمنی کے 3500 فوجی ہلاک و زخمی کر دیے۔
لیج کے مقام پر جرمنی کی ایک لاکھ فوج کے پچیس ہزار فوجی،تیس ہزار بیلجیم فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔
جس سے جنگ کی ہلاکت خیزی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
اتحادیوں کی دولاکھ پچاس ہزار ہلاکتیں ہوئیں اور جرمنی کی کچھ اس سے زیادہ جو ایک مہنگی فتح تھی لیکن فتح بہر حال تھی۔
اپنی سبکدوشی سے کچھ دیر پہلے چیف آف اسٹاف نے کیسر کو پیغام بھیجا تھا۔
یور میجسٹی ہم جنگ ہار چکے ہیں !
جنرل پال وان ہنڈن برگ اور جنرل ایرک ولیم لڈن ڈروف کی زیرِ کمان جرمن فوج نے ایک مہینہ کے بھی کم عرصہ میں مسورین کی لڑائی میں روس کی حملہ آور فوج کو دوسری مرتبہ شکست دی۔
روسیوں کا نقصان ایک لاکھ پچیس ہزار ہلاک، ایک سو پچاس توپیں اور آدھی ٹرانسپورٹ تباہ، جبکہ جرمنوں کے چالیس ہزار فوجی ہلاک ہوئے۔
روس کی طرف سے افرادی برتری کے باوجود روسی فوج ہنڈن برگ کی منظّم فوج کا مقابلہ نہ کرسکی۔
روسیوں کی کمزور لیڈرشپ، مؤثر رابطے کی کمی ، راز کی عدم موجودگی اور ذرائع آمدورفت کی خرابی شکست کے اسباب ہیں۔
اگست کے آخر میں ٹائن برگ کی لڑائی میں جرمنوں کی فتح فیصلہ کن ثابت ہوئی بحیرہ بالٹک کے قریب مشرقی پرشیا کے محاذ پر ہڈن برگ نے روسی جنرل سمیونوف کی دوسری روسی فوج کو شکست دے کر کونگیز برگ کی فتح کا راستہ روکا۔
ایک لاکھ سے زائد روسی ہلاک ہوئے اور پانچ تو میں قبضہ کر لی گئیں۔ علاوہ ازیں سمیونوف نے اس شکستِ فاش سے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کر لی۔ جرمنوں کے دس ہزار سے پندرہ ہزار تک فوجی ہلاک ہوئے۔
تانن برگ کی فتح سے نہ صرف جرمنوں کی یورپ میں پوزیشن مضبوط ہوئی بلکہ ان کا حوصلہ بھی بلند ہوا جبکہ یورپ بعض وجوہ کی بنا پر ترکی کے وزیر دفاع انور پاشا کا جھکاؤ جرمنی کی طرف تھا۔ چنانچہ اکتوبر کے آخر میں ترکی نے بھی اتحادیوں کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ جس کی وجہ سے اتحادیوں کے لئے پیچیدہ صورتحال پیدا ہو گئی۔ برطانیہ اور فرانس کے جنگی جہازوں نے ترکی کے جزیرہ نما گیلی پولی کے قلعوں پر شدید بمباری کی جو کہ بحیرہ میمورا اور استنبول میں رسائی کا راستہ ہیں۔
اتحادیوں کا بنیادی اور فوری مقصد استنبول پر قبضہ تھا۔چرچل کے مطابق اس سکیٹر پر حملے سے جرمنی کا روس کی طرف دباؤ کم ہو جائے گا۔ روسی دو مرتبہ اتحادیوں سے اس علاقہ میں مداخلت کی درخواست کر چکے تھے۔ کیونکہ وہ استنبول پر قبضہ اپنے فوجی مقاصد کا ایک حصہ سمجھتے تھے۔
امریکہ کی طرف سے جرمن کے ساحل کے قریب دو جہاز ڈبونے اور ناروے کے جہاز پر تارپیڈو کے حملے کے بعد جرمنوں نے برطانیہ کے قریب نیوٹرل سمندر میں حملے تیز کر دیئے۔
جرمنوں نے 18 فروری 1915 کے بعد اس علاقے کو جنگی علاقہ قرار دیا۔ ان کے اعلان کے مطابق اس زون میں کوئی بھی جہاز چاہے وہ مسافر بردار ہو یا سامان بردار، تباہ کر دیا جائے گا۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے اس علاقے میں اپنے کسی جہاز پر ممکنہ جرمنی کے حملے کے پیش نظر جرمنی کو دھمکی دی لیکن جرمنی نے کوئی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا اور وارننگ دی کہ آئرلینڈ اور برطانیہ کے ارد گرد سمندر میں بارودی سرنگیں بچھائی جائیں گی جسے اس نے حفاظتِ خود اختیاری کا نام دیا۔
22 مئی 1916 کو اٹلی نے آسٹریا کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور عام پیش قدمی کا حکم دیا اور جرمنی آسٹریا کے ساتھ اٹلی کے خلاف جنگ میں شامل ہو گیا۔ اس طرح جنگ کا دائرہ مزید وسیع ہوتا گیا۔
یکم جولائی کو اتحادیوں نے فرانس کی فوج کی مدد سے ایک بڑا حملہ کیا اس میں ہر سپاہی کے ساتھ 66 پونڈ کا ساز وسامان تھا اتحادیوں کو توپ خانے، مشین گنوں اور مارٹر فائر کی بارش میں پیش قدمی کرنا پڑی جوکہ مؤثر نہ رہی۔ برطانیہ کے صرف ایک دن میں ساٹھ ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
مغربی محاذ پر فرانس اور برطانیہ کے متوقع بڑے حملے کے پیش نظر جرمنی ہائی کمانڈ نے سگفیریڈ لائن پر اپنی پوزیشنوں کو مستحکم کر لیا۔ باوجود اس کے نومبر کے اختتام پر برطانوی ٹینک جرمنوں کے دفاع کو توڑتے ہوئے اندر تک مار کرتے چلے گئے۔ لیکن برطانوی حملے کو جرمنوں کے جوابی حملے نے فوری طور پر غیر مؤثر کر دیا اور اپنا کھویا ہوا علاقہ واپس لے لیا۔
آسٹریا ہنگری کے وسائل دن بدن ختم ہورہے تھے سال کے اختتام پر وہ اٹلی کے مسلسل حملوں کو صرف جرمنوں کی مدد سے پسپا کر سکتے تھے۔ 1917ء کا سال روسیوں کے لئے بھی ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ فروری میں پیٹروگراں میں (اب سینٹ پٹیسرگ) جو بغاوت اٹھی تھی، زار روس کی دستبردای پر منتج ہوئی اور اس کے نتیجے میں صوبائی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔
یہ حکومت جرمنوں کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے حق میں تھی جبکہ بولشویک پارٹی جنگ کا خاتمہ چاہتی تھی۔ جولائی میں بولشوکوں کی ناکام بغاوت کے بعد دوسری بغاوت زیادہ کامیاب رہی اور بولشوکوں نے بغیر کسی مزاحمت کے حکومت پر قبضہ کر لیا۔ 8 نومبر کو امن کا علانیہ جاری کیا گیا جس کے ساتھ ہی جرمنوں کے ساتھ جنگ بندی ہو گئی۔ اس کے نتیجے میں مشرقی محاذ خاموش ہو گیا۔ اور جنگ کا سارا فیصلہ کن زور مغربی محاذ کی طرف منتقل ہو گیا۔
20 فروری 1918 ء تک التوائے جنگ کی مدت ختم ہو گئی تو جرمنی کی فوج نے روس پر شدید حملے کا آغاز کر دیا۔ جرمنوں کا مقصد روس کے گھٹنے ٹیکنا اور اسے امن معاہدے کے لئے مذاکرات پر مجبور کرنا تھا۔
کرنل جنرل کاؤنٹ کرک باخ کی زیر کمان دستے پیش قدمی کرتے ہوئے لیوانیا اور استونیا کے شہروں میں داخل ہو گئے انہیں بہت کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑی حتی کہ مقامی لوگوں نے انہیں خوش آمدید کہا جو بولشوک انقلاب کے مخالف تھے۔ جرمنوں نے جلد ہی ریگا اور خلیج فن لینڈ کے ارد گرد کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ کوئی طاقت جرمن پیش قدمی کو نہ روک سکی اور وہ پیٹروگرڈ پر چڑھائی کرتے چلے گئے۔
روسیوں نے پسپائی اختیار کرتے ہوئے اپنے پیچھے اسلحے کا بہت بڑا ذخیرہ چھوڑ دیا۔ ایک دوسرے جرمن جنرل الیگزنڈ وان لمسکن نے یوکرائن میں اہم ٹھکانوں پر قبضہ کر لیا اور ایک قلیل مدت میں جرمنوں نے ہزاروں روسی افسروں اور سپاہیوں کو قیدی بنالیا۔ جس کے بعد 14 مارچ 1918 ء کو روس اور جرمنی کے درمیان امن معاہدہ طے پا گیا اس معاہدہ کو بریسٹ لٹوسک کا نام دیا جس کی شرائط کے مطابق روس اپنی فوج تحلیل کرنے اور فن لینڈ، پولینڈ اور یوکرائن کی آزادی تسلیم کرنے پر رضامند ہو گیا۔
برطانوی عوام فیلڈ مارشل بیگ کی فوج میں کمی کا مطالبہ کر رہی تھی اور لوگوں تک افواج کے گرمی کی شدت سے نڈھال ہونے کی خبریں پہنچ رہی تھیں۔ اتحادیوں نے 27 مئی کو نئے حملہ کا منصوبہ بنایا اس وقت جرمنوں کی 30 ڈویژن فون AIONE کو عبور کر چکی تھی ۔ انہوں نے خاموشی سے پیش قدمی کی تھی ۔ اور گھوڑوں کے سم نرم کپڑوں سے لپیٹ دیئے گئے تھے فوجی دستے دن کے وقت جنگلوں میں چھپ جاتے اور جہازوں کی نظر میں نہ آتے اور رات کو پیش قدمی کرتے ۔ 30 مئی کو کچھ جرمن Chateu Thiern کے مقام پر پہنچ گئے جو آمد ورفت کا ایک بڑا مرکز تھا۔ امریکی ساتویں الفٹری کے کچھ جوان پہلے ہی وہاں موجود تھے۔ مرکزی پل پر تعنیات کچھ جوانوں نے جرمنوں کی پیش قدمی کو رو کے رکھا۔ بعد از دست بدست جنگ کا آغاز ہوا۔
جرمن Chateau Thierry کے مشرق کی طرف مڑ گئے اور 3 جون تک وہ ایک بار پھر Marne پر تھے پیرس 56 میل دور تھا۔
9 جون کو حملے کا آغاز ہوا اور جرمن چھ میل تک ایڈوانس کرتے چلے گئے۔ 11 جون کو تین فرانس ڈویژنوں اور فرسٹ اور سیکنڈ امریکی ڈویژنوں نے جوابی حملے کا نفسیاتی فائدہ حاصل کیا۔ فائدہ یا برتری کبھی واضح نہیں ہوتی۔ اتحادیوں اور جرمنوں کو بھاری نقصان ہورہا تھا۔ گندم کے کھیت لاشوں اور چھوڑے ہوئے اسلحہ سے اٹے پڑے تھے۔ امریکی سپاہی جو گیس کے حملے کا نشانہ بنے تھے، ہسپتال سے دوبارہ محاذ پر آگئے ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جرمنوں کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ اب جرمنوں کی شکست کے آثار نظر آ رہے تھے۔ مارچ 1918ء میں جرمن فوج نے جتنے حملے کئے، اتحادی فوجوں نے مشترکہ حکمتِ عملی سے روک دیئے۔ مارنے اور ولیسلے کے مقام پر جرمن فوجوں کو دو میل پیچھے دھکیل دیا گیا۔30 ستمبر تک اتحادی افواج نے فرانس میں جرمن صفوں کے اندر تک رسائی حاصل کر کے اہم فتوحات حاصل کیں۔ ہزاروں سپاہیوں کو قیدی بنالیا۔
اس قسم کا نقصان جنرل ہنڈن برگ کی فوجوں کوبھی اٹھانا پڑا۔ جرمن ابھی پچھلے حملے سے سنبھل نہیں پاتے تھے کہ انہیں ایک نئے حملے کا سامنا کرنا پڑتا۔ جرمن فوجوں کی شکست کا مطلب یہ تھا کہ جنگ اپنے انجام کو پہنچ رہی تھی۔ آخر کار 14 اکتوبر 1918ء کو جرمنی نے امن کی اپیل کی۔ 30 اکتوبر کو ترکی نے بھی ہتھیار ڈال دیئے۔ جس کے بعد پورے یورپ کے جنگی میدانوں پر سے جنگ کے بادل چھٹ گئے۔
11 نومبر کو صبح پانچ بجے جرمنوں نے جنگ بندی پر دستخط کر دیئے جس کے بعد باضابطہ طور پر جنگ بند ہو گئی۔
(ابن الاشرف💓)
بہت عمدہ جناب💓