عبدُ الرّحمٰن الداخل
عبدُ الرّحمٰن الداخل :
اندلس (سپین) میں آزاد مسلم سلطنت کا بانی :
پیدائش : 731ء(113ھ) دمشق۔
وفات : 788ء(172ء) قرطبہ۔
تاریخِ اسلام کا ایک نمایاں کردار عبدُالرّحمٰن اوّل یا الداخل شام کے اُمیّہ خاندان کا فرد، معاویہ بن ہشام کا بیٹا اور اُموی خلیفہ عبد الملک بن مروان کا پوتا تھا۔ جب اس کے رشتہ داروں کو عباسی چُن چُن کر قتل کر رہے تھے تو عبدالرحمان اس وقت نو عمر لڑکا تھا۔ 132ھ میں عباسیوں کے ہاتھوں اُمویوں کا خاتمہ ہوا تو عبدالرحمن اپنی جان بچا کر خفیہ طور پر فلسطین پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ وہاں سے وہ اپنے آزاد کردہ غلام ‘بدر’ کی معیّت میں پہلے مصر اور پھر افریقہ میں داخل ہوگیا۔ جو اس زمانے میں مصر کے مغربی اور الجزائر کے مشرقی حصے کا نام تھا۔
یہاں سے عبدالرحمن مغربِ اقصٰی (مراکش) پہنچا۔ جہاں کے ایک قبیلے سے اس کی والدہ تعلق رکھتی تھی۔ قیروان میں افریقہ کے والی عبدالرحمان بن حبیب کی معاندانہ رٙوٙش نے اسے المغرب(مراکش) میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ کچھ عرصہ وہ “تاہرت” کے علاقے میں رہا۔ بعد ازاں پہلے ‘مکناس’ کے بربر قبیلے کے ہاں مہمان رہا۔ پھر خاندانی تعلقات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بحیرہ روم کے مراکشی ساحل کے ایک قبیلے نفزہ کے ہاں چلا گیا۔ کیونکہ اس کی ماں اسی قبیلے کی گرفتار شدہ عورت تھی۔ گرد و پیش کا جائزہ لے کر عبدالرحمن نے اندلس جانے کا فیصلہ کیا۔ بربر اور اُمویوں کے حامی اس کے ساتھ ہو گئے۔ مگر ان کے وہاں پہنچنے پر اندلس کا گورنر یوسف بن عبدالرحمن جنگ پر آمادہ ہوگیا۔ لیکن عبد الرحمٰن الداخل نے یوسف کو قرطبہ کے باہر شکستِ فاش دی۔ یہ 10 ذوالحجہ 138ھ کا واقعہ ہے۔
یکم ربیع الاول 139ھ کو عبدالرحمان “المنکب” کے مقام پر جہاز سے اترا اور آتے ہی اندلس کا حکمرانِ اعلٰی ہونے کا دعوٰی کر دیا۔ عبدالرحمان اشبیلیہ میں داخل ہوا قرطبہ کے قریب یوسف الفہری کو شکست دی اور دارالسلطنت میں داخل ہوگیا۔ جہاں اس کے امیرِ اندلس ہونے کا اعلان کر دیا گیا۔ یہاں اس زمانے میں عجیب ابتری پھیلی ہوئی تھی۔ دو عرب قبیلے حِمیٙری اور مغری ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔ اور ہر وقت ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے پر تُلے رہتے تھے۔ عبدالرحمان نے کچھ ایسی حکمت عملی اختیار کی کہ تھوڑے ہی عرصے میں سارا ملک اس کے قبضے میں آگیا اور اندلس میں اُموی سلطنت کی بنیاد پڑی اور عبدالرحمان نے صرف چھ برس کے اندر 756ء میں اپنی حکومت قائم کرلی۔
عبدالرحمان کی کامیابی کی اطلاع مشرق میں پھیلی اور جلد ہی بنو اُمیہ کے حامی اندلس آنے لگے۔ تاکہ مغرب میں اس خاندان کی بحالی میں معاون ثابت ہو سکیں۔ قرطبہ کے اس امیر کو بہت جلد بعض عظیم سیاسی مشکلات سے دوچار ہونا پڑا۔ مخالفین نے شاہ فرانس اور جرمن شارلمین کو دعوت دے کر بُلا لیا۔ جس نے 162 ہجری میں “سرقسط” کا محاصرہ کرلیا۔ مگر اسے ناکام لوٹنا پڑا۔ شارلمین کی فوج “ران سس ویلس” میں بری طرح تباہ و برباد ہوئی۔ اس واقعہ کے بعد عبدالرحمن نے سرقسط بھی فتح کر لیا۔ اس کا سب سے پہلا کام اندلس کے سابق گورنر یوسف الفہری کو مطیع بنانا تھا۔ چنانچہ اسے 758ء میں شکست دی اور وہ قتل ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی مختلف بغاوتیں نئی بادشاہت میں جنم لینے لگیں۔ چناچہ عبدالرحمن اوّل کو مختلف مقامات پر متعدد بغاوتوں سے نبرد آزما ہونا پڑا۔
قرطبہ میں آزاد اسلامی سلطنت کے اس بانی نے 33 سال بڑی کامیابی کے ساتھ حکومت کی۔ اس نے عباسی خلافت سے اپنا لوہا منوایا اور 765 عیسوی میں اور قبائل کو زیرِ نگیں کر کے اپنی حکومت کو مستحکم کرلیا۔ عبدالرحمان 30 دسمبر 788ء کو قرطبہ میں فوت ہوا۔ اس وقت اس کی عمر 60 برس سے کم تھی۔
اسے عبد الرحمٰن الداخل بھی کہتے ہیں یعنی الداخل باہر سے اندرونِ ملک داخل ہونے والا۔ عبدالرحمن اوّل اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے بعد قرطبہ میں اسی نام کے چار دوسرے اُموی خلفاء نے بھی حکومت کی۔ اس نے قرطبہ میں نئی عمارتیں بنوائیں۔ جن میں قرطبہ کی جامع مسجد قابلِ ذکر ہیں۔ جس میں علامہ اقبال نے اذان دی تھی۔ اس کے علاوہ ایک عظیم الشان باغ لگوایا۔ جس میں کھجور کا درخت دیکھ کر اپنے وطن شام کی یاد میں چند پر اثر اشعار کہے تھے۔ علامہ اقبال رحمتہ اللّٰہ علیہ نے ان کا ترجمہ بھی کیا ہے۔
عبدالرحمان بہت نیک، سخی، رحمدل، خوش اخلاق، عوام دوست اور بے تکلف حکمران تھا۔ رعایا کا جو فرد جہاں چاہتا اس کے شاہی گھوڑے کی باگ پکڑ کر اسے اپنی شکایت پیش کر دیتا۔ قرطبہ میں بیماروں کی عیادت بھی کرتا اور جنازوں میں بھی شریک ہوتا۔
اِبنُ الاٙشرٙف💓