خلیفة الرسولﷺ نائب حضور خاتم النبیّینﷺ حضرت سیّدُنا عبداللّٰہ بن عثمان ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنھما
حصہ اوّل :
اِسمِ گرامی :
امام ابنِ کثیر رحمتہ اللّٰہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ اپ کا نام عبداللّٰہ بن عثمان (رضی اللّٰہ عنھما) ہے۔
لٙیث بن سعد، امام احمد بن حنبل، امام ابنِ مٙعِین رحمھم اللّٰہ اور جمہور مورّخین اسی بات کے قائل ہیں۔
(ابنِ کثیر، طبقات ابنِ سعد، حِلیة الاولیاء، تاریخ الخلفاء)۔
نسب مبارک :
والدِ محترم کیطرف سے نسب ؛
عبداللّٰہ بن ابی قُحافہ (ابو قحافہ کا نام حضرت عثمان ہے) بن عامر بن کعب بن سعد بن تٙیم بن مُرّٙہ تھا۔
والدہ کیطرف سے نسب :
اُمُّ الخٙیر سلمٰی بنتِ صٙخر بن عامر بن کعب بن سعد بن تٙیم بن مُرّہ تھا۔
(طبقات ابنِ سعد، اُسدُ الغابہ فِی مٙعرِفٙةِ الصّحٙابة، سِیّر الصحابہ، تاریخُ الاُمٙم وٙالملُوک)۔
کنیت :
آپ رضی اللّٰہ عنہ کی کنیتِ مبارکہ ابوبکر(رضی اللّٰہ عنہ) تھی۔
وجہ تسمیہ :
یوں تو مورّخین نے کافی وُجوہات بیان کی ہیں مگر جمہور مورّخین کے دو اقوال ذیل میں مذکور ہیں۔
١ : بکر کے معنی اٙوّٙلیّت کے ہیں۔ بٙکرہ اور باکرہ اِسی سے ماخوذ ہیں۔ تو ابوبکر کے معنی ہوئے اوّلیّت حاصل کرنے والا۔
چونکہ آپ رضی اللّٰہ عنہ ہی ایمان لانے، ہجرت کرنے، حضور علیہ الصّلٰوۃ والسّلام کے دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد خلیفہ بِلا فصل اور قیامت کے دن قبر کُھلنے وغیرہ میں سب پہلے اور اوّل ہیں۔ اس لیے آپ رضی اللّٰہ عنہ کو ابوبکر کی کنیت سے یاد کیا جاتا ہے۔
(مراة المناجیح شرح مِشکٰوةُ المصابیح از مفتی احمد یار خان نعیمی رحمٙہُ اللّٰہ)۔
٢ : دوسری وجہ یہ ہے کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے آپ رضی اللّٰہ عنہ نے ایک عورت سے شادی کی جو اُمُّ البکر کے نام سے مشہور تھی۔ اُس کا ایک لڑکا تھا جس کا نام بکر تھا، اسی لڑکے کے نام کی نسبت سے آپ رضی اللّٰہ عنہ کو ابوبکر کی کنیت سے یاد کیا جانے لگا۔
القابات :
آپ رضی اللّٰہ عنہ کے القابات ذیل میں مذکور ہیں ؛
١ : عتیق ؛
وجہ تسمیہ ؛
آپ رضی اللّٰہ عنہ کے اِس لقب کے متعلق کئی اقوال مذکور ہیں مگر ہم یہاں جمہور کے قول کو ترجیح دیتے ہوئے ذکر کرتے ہیں۔
ابو یٙعلی نے اپنی مسند اور ابنِ سعد اور حاکم (رحمھم اللّٰہ) نے حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے روایت کی ہے۔ آپ رضی اللّٰہ عنہا نے فرمایا ؛
میں ایک دن اپنے گھر میں تھی اور رسول اللّٰہﷺ اپنے اصحاب رضی اللّٰہ عنہم کیساتھ صحن میں تشریف رکھتے تھے۔ میرے اور اُن کے درمیان پردہ تھا۔ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ تشریف لائے تو حضورﷺ نے فرمایا؛
جو شخص “”عٙتِیقُُ مِّنٙ النّٙار”” (یعنی دوزخ کی آگ سے آزاد) کو دیکھنا پسند کرتا ہے تو وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کو دیکھ لے۔ اپ رضی اللہ عنہ کے گھر والوں نے آپ کا نام عبداللّٰہ رکھا تھا مگر عتیق سے مشہور ہوئے۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ کا نام عبدالکعبہ تھا مگر بعد میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے آپ کا نام عبداللّٰہ رکھا۔
(طبقات ابنِ سعد، تاریخ الخلفاء)۔
اسی طرح ایک اور روایت میں امام ترمذی اور امام حاکم رحمہما اللّٰہ نے حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے روایت کیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ حضورﷺ کی خدمتِ اٙقدس میں حاضر ہوئے تو آپ حضورﷺ نے فرمایا ؛
“”یٙا اٙبٙابٙکْرِِ اٙنتٙ عٙتِیقُُ مِّنٙ النّٙارِ””
(اے ابوبکر! تُو دوزخ کی آگ سے خدا تعالٰی کا آزاد کیا ہوا ہے)۔
بس اُسی روز سے آپ رضی اللّٰہ عنہ عتیق کے لقب سے مشہور ہو گئے۔
(تاریخ الخلفاء، تاریخ الاُمٙم والملوک، حِلیٙةُ الاولیاء، اُسدُ الغابہ)۔
٢ : صِدِّیق ؛
وجہ تسمیہ :
زمانہ جاہلیت میں ہی آپ رضی اللّٰہ عنہ اِس لقب سے ملقّٙب ہو گئے تھے کیونکہ آپ ہمیشہ سچ ہی کہتے تھے۔
آپ رضی اللّٰہ عنہ ہر بات میں آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کی تصدیق فرماتے جو کہ اِس لیے یہ لقب ہوا۔
(تاریخُ الخلفاء)۔
ابنِ اسحاق نے حضرت حسن بصری اور حضرت قتادہ رحمھما اللّٰہ سے روایت کی ہے کہ اِس لقب کیساتھ آپ کی شہرت، شبِ معراج کی صبح سے ہوئی۔
امام حاکم رحمٙہُ اللّٰہ نے اپنی مستدرک میں حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے روایت کی ہے کہ مشرکین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ اب بھی تُو اپنے دوست (یعنی حضورﷺ) سے رغبت رکھے گا جب کہ وہ یہ کہتا ہے کہ میں رات کو بیت المقدّس سے پہنچایا گیا تھا؟۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ نے مشرکین دریافت فرمایا کہ کیا سچ میں آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا؟۔
مشرکین نے (دل میں خوش ہوتے ہوئے) کہا کہ ہاں !۔
تو آپ رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ میں تو اِس سے زیادہ تعجب والی بات میں اُنکی تصدیق کرتا ہوں کہ اُن پہ ہر روز صبح و شام آسمانی خبریں نازل ہوتی ہیں۔ (پھر معراج کی کیوں نہ تصدیق کروں؟ )۔ اسی وجہ سے ان کا نام ابوبکر صدیق مشہور ہو گیا۔
(اُسدُ الغابہ، تاریخ الخلفاء)۔
سعید بن منصور نے اپنی سنن میں لکھا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللّٰہﷺ شبِ معراج میں واپس آتے وقت مقامِ “ذِی طویٰ” پر پہنچے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا ؛
اے جبرائیل(علیہ السّلام) !
لوگ میری تصدیق نہ کریں گے۔
تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی۔ کہ آپ ﷺ کی تصدیق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کریں گے اور وہ صدیق ہیں۔
اِس حدیثِ مبارکہ کو امام طبرانی نے بھی اپنی کتاب معجم الاوسط میں ذکر کیا ہے۔
امام حاکم رٙحمہُ اللّٰہ اپنی مُستٙدرک میں روایت بیان کرتے ہیں کہ؛
حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ اے امیرُ المُومنِین ہمیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ سے متعلق خبر دیجئے!۔
آپ رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا ؛
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ وہ شخص ہیں۔ خدا تعالی نے ان کا نام “صدیق” حضرت جبرائیل علیہ السلام اور حضورﷺ کی زبان مبارک سے کہلوایا ہے۔ وہ نماز میں حضورﷺ کے خلیفہ تھے اور حضورﷺ نے اُنہیں ہمارے دین کے لیے پسند فرمایا تھا۔ پس ہم نے اُنہیں اپنی دنیا کے لیے پسند کیا۔
کئی دفعہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ اللّٰہ تعالٰی نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کا نام اپنے نبی ﷺ کی زبان پر صدیق رکھا ہے۔
امام طبرانی حکیم بن سعد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ قسم کھا کر کہتے تھے کہ اللّٰہ تعالی نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کا نام “صدّیق” آسمان سے نازل کیا ہے۔
حدیثِ اُحد میں ہے کہ ؛
رسول ﷺ نے فرمایا کہ اے اُحد ٹھہر جا اور ساکن ہو جا کہ تُجھ پر اِس وقت نبیﷺ، صدیق اور شہید ہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(تاریخ الخلفاء، مستدرک لِلحٙاکم)۔
ابنُ الاٙشرٙف💓