جنرل نوکی نے خود کُشی کر لی
قدیم جاپان میں یہ رواج تھا کہ بادشاہ کی موت پر اُس کے درباری بھی خود کشی کر لیتے تھے۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ دوسری دنیا میں بھی اپنے آقا کی خدمت گزاری کے فرائض انجام دیتے رہیں۔ یہ بادشاہوں اور درباریوں کے درمیان دائمی مفاہمت اور وفاداری کا اظہار تھا لیکن سینکڑوں سال پیشتر یہ رواج متروک ہو چکا تھا۔
سینکڑوں سالوں میں کوئی ایک آدھ بادشاہ ایسا تھا جس کے لئے دوسرے اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں۔ لہٰذا اس رواج کو اب یوں زندہ رکھا گیا تھا کہ جب کوئی بادشاہ مرجاتا تو مٹی کے پتلے بنا کر اس بادشاہ کے ساتھ دفن کر دیئے جاتے تھے۔
10 جولائی 1912ء کی ایک رات جب ٹوکیو شہر کی سڑکیں روشنیوں سے منوّر ہو چکی تھیں ایک بہت بڑا
جلوس سڑکوں پر سے گزرا۔
سب سے آگے ایک بیل گاڑی تھی جس پر جاپان کے 122ویں شہنشاہ میجی مسٹو ہیٹو کا تابوت رکھا تھا۔ پیچھے ایک لمبا جلوس اس کی آخری رسوم میں شرکت کے لئے جارہا تھا۔ جس وقت میت کو شاہی محل سے باہر لایا گیا اس وقت بادشاہ کے مصاحبِ خاص جنرل نوکی اور اس کی بیوی نے خودکشی کر لی چنانچہ جب بادشاہ کو دفن کیا گیا تو اس کے ساتھ سلطنت کے چار عظیم جرنیلوں کی میتیں بھی قبروں میں اتار دی گئیں۔
جنرل نوکی کا یہ اقدام انتہائی غیر متوقع تھا اور جنرل کو اس سلسلے میں کچھ دیر بھی ہو گئی تھی جس کی وجہ سے اسے شاہی قبر میں دفن نہ کیا جا سکا جنرل نوکی نے خود کشی کر کے یہ ثابت کر دیا تھا کہ یہ رسم ابھی ختم نہیں ہوئی۔
مسٹو ہسٹو پینتالیس سال قبل اوائل جوانی میں تخت پر بیٹھا تھا۔ وہ ایک ذہین اور دانشور بادشاہ تھا جس کی تخت نشینی جایان کے لئے خوش نصیبی کا باعث بنی۔ اس شہنشاہ کے دور میں 1904ء میں رُوسی مداخلت کے نتیجے میں رُوس پر حملہ کر کے فیصلہ کن کامیابی حاصل کی۔ یہ جاپان کی ترقی کا سُنہرا زمانہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب 1912ء شہنشاہ کی وفات ہوئی تو جاپانی عوام کو بے حد صدمہ پہنچا۔ اس نے اپنے پینتالیس سالہ دورِ اقتدار میں اپنے ملک کو تمام دنیا کے لئے قابل عزت قوم بنا دیا۔
(اِبنُ الاٙشرٙف