دہلی دارالحکومت بن گیا
برطانوی ہندوستان کا دارالحکومت شروع میں کلکتہ تھا۔ دہلی میں اس کی منتقلی ایک ہنگامہ خیز واقعہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ کیونکہ آخر وقت تک کسی کو کانوں کان یہ خبر نہ ہوئی کہ ایسا ہونے والا ہے۔ شاہ جارج پنجم نے اس کا اعلان کیا اور اس کے فوراً بعد نئے دارالحکومت کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ اس تبدیلی کو پردۂ راز میں رکھنے کی ضرورت اس باعث پیش آئی کہ کلکتہ انگریز تاجروں کا بہت بڑا گڑھ تھا۔ وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ ان کے شہر کی حیثیت ایک صوبائی شہر کی رہ جائے۔ اُدھر ملکی پالیسی کا تقاضہ یہ تھا کہ دار الحکومت بدل دیا جائے۔ لارڈ ہارڈنگ سے پہلے کئی وائسرائے یہ کوشش کر چکے تھے مگر مخالفتوں کی تاب نہ لا کر خاموش ہو گئے۔ لارڈ ہارڈنگ وائسرائے ہونے سے پہلے ایک ڈپلومیٹ کی حیثیت سے کلکتہ میں رہ چکا تھا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ صدر مقام بہر صورت منتقل ہو جانا چاہیے۔ دسمبر 1910ء میں لارڈ ہارڈنگ وائسرائے بن کر ہندوستان پہنچا۔ اُس نے حالات و واقعات کا جائزہ لے کر یہ نتیجہ نکالا کہ تقسیمِ بنگال کی وجہ سے جو بے اطمینانی پیدا ہوئی ہے اور مرکزی اسمبلی پر کلکتہ جو غلط قسم کے اثرات ڈالتا ہے، اس کے تدارک کا کوئی طریقہ ہونا چاہیے۔ یہ طریقہ وائسرائز کونسل کے ہوم ممبر سر جان جینکن نے سمجھایا۔ جون 1911ء کو اُس نے وائسرائے کو ایک یادداشت پیش کی۔ جس میں یہ کہا گیا تھا کہ اگر دارالحکومت کلکتہ سے منتقل کر دیا جائے تو یہ سیاست و تدبر کا ایک بڑا کارنامہ ہوگا۔ دارالحکومت کی تبدیلی اور تقسیمِ بنگال کی تنسیخ کا اعلان شاید دِلّی دربار میں کریں۔ اس سے یہ ہوگا کہ بنگال میں بے اطمینانی ختم ہو جائے گی ۔ پھر ہندوستانیوں کے ذہنوں میں پایۂ تخت کا تصور دِلّی سے وابستہ چلا آتا ہے۔ پس دارالحکومت کی تبدیلی برطانوی سلطنت کو استحکام بخشے گی۔ لارڈ ہارڈنگ نے ایک لمبی چوڑی یادداشت سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا لارڈ کلایو کو لکھی اور اس میں ہندوستان کی سیاست پر بحث کرتے ہوئے یہ تجویز پیش کی کہ یہ معاملہ خفیہ رہنا چاہیے۔ ورنہ بڑی مخالفت ہوگی۔ لارڈ کلایو کو یہ تجویز پسند آئی اس نے یہاں تک اسے پردۂ راز میں رکھا کہ وزیرِ اعظم تک سے اس کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ سیدھابادشاہ کے پاس پہنچا اور یہ تجویز پیش کر دی۔ بادشاہ نے یہ تجویز منظور کرلی اور اسے خود خفیہ رکھنے پر جتنا زور دیا کہ مقرّبین تو کیا ملکہ تک سے اس کا ذکر نہیں کیا ۔ چنانچہ ہندوستان پہنچنے پر جب لارڈ ہارڈنگ نے ملکہ کی موجودگی میں یہ ذکر چھیڑا تو ملکہ بہت حیران ہوئیں اور تعجّب سے پوچھا کہ یہ کیا قصہ ہے۔ جب دِلّی دربار کی تقریب سر پر آگئی تو یہ سوال پیدا ہوا کہ ضروری کاغذات چھپوائے جائیں لیکن اندیشہ یہ ہوا کہ پریس میں جا کر یہ بات نکل جائے گی۔ اس کی ترکیب یہ سوچی گئی کہ دربار کیمپ میں ایک چھوٹا سا کیمپ بنایا گیا جہاں چھاپہ خانہ قائم ہوا۔ دربار سے تین دن پہلے سیکرٹری اور وہ عملہ جسے گزٹ ترتیب دینا تھا, وہ مزدور جنہیں گزٹ چھاپنا تھا, وہ باورچی جنہیں ان لوگوں کے لئے کھانا پکانا تھا سب کو اس کیمپ میں داخل کر دیا گیا اور باہر ایک پہرہ پولیس کا اور دوسرا پہرہ فوج کا قائم کیا گیا کہ کیمپ سے کوئی باہر جا سکے نہ باہرسے کوئی کیمپ میں آسکے۔ یوں یہ تجویز آخر دم تک پردۂ راز میں رہی۔ شاہ جارج پنجم نے 11 دسمبر 1911ء کو دِلّی دربار میں حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے یہ اعلان کیا۔ جہاں اس پر بہت تحسین و آفرین کے نعرے بلند ہوئے مگر انگریزوں نے کیا کلکتہ میں اور کیا برطانوی پارلیمنٹ میں اس کی بڑی زور وشور سے مخالفت کی اور لارڈ ہارڈنگ کو اُس کے عہدے سے ہٹا دینے کا مطالبہ کیا، مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ بادشاہ کی زبان سے نکلا ہوا لفظ اب واپس تو نہیں لیا جا سکتا تھا۔ (اِبنُ الاٙشرٙف)