مجھے شرم آتی ہےکہ اللّٰہ کے گھر میں آکر غیر سے مانگوں
اپنے وقت کا بادشاہ، سلیمان بن عبدالملک کا بھائی ہشّام بِن عبدالملک بِن مروان بیت اللّٰہ شریف کے حج کو آیا۔ طواف کے دوران میں اُس کی نگاہ زاہد ومتقی اور عالم ربانی سالم بن عبداللّٰہ بِن عمر رضی اللّٰہ عنہُ پر پڑی جو اپنا جوتا ہاتھ میں اُٹھائے ہوئے خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے۔ اُن کے اوپر ایک کپڑا اور ایک عمامہ تھا، جِس کی قیمت تیرہ درہم سے زیادہ نہیں تھی۔ ہشّام نے کہا
سَلْئي حَاْجَۃً
“کوئی حاجت ہو تو فرمائیے۔“
سالم بن عبداللّٰہ رضی اللّٰہ عنہُ نے کہا
اِنّی لَاَسْتَحْیْی مِنَ اللَّهِ أَنْ أَسْأَلَ فِي بَيْتِهِ غَيْرَهُ
“مجھے اللّٰہ سے شرم آرہی ہے کہ میں اس کے گھر میں ہوتے ہوئے کسی اور کے سامنے دستِ سوال دراز کروں۔“
یہ سننا تھا کہ خلیفہ کے چہرے کا رنگ سرخ ہونے لگا۔ اُس نے سالم بن عبداللّٰہ کے جواب میں اپنی سبکی محسوس کی۔ جب سالم بن عبد اللّٰہ حرم شریف سے باہر نکلے تو وہ بھی اُن کے پیچھے ہی حرم سے نِکل پڑا اور راستے میں اُن کے سامنے آکر کہنے لگا :
اٰلْأٰنَ قَدْ خَرَجْتَ مِنْ بَيْتِ اللَّهِ فَسَلْنِي حَاجَةً
“اب تو آپ بیت اللّٰہ شریف سے باہر نِکل چکے ہیں، کوئی حاجت ہو تو فرمائیں(بندہ حاضر ہے)”
سالم بن عبداللہ گویا ہوئے:
مِنْ حَوَائِجِ الدُّنْيَا أَمْ مِنْ حَوَائِجِ الْآخِرَةِ؟ “
” آپ کی مراد دنیاوی حاجت سے ہے یا اخروی حاجت ہے؟“ ہشّام : اُخروی حاجت کو پورا کرنا تو میرے بس میں نہیں البتہ دنیا کی ضرورت پوری کر سکتا ہوں ، فرمائیں۔
سالم بن عبداللّٰہ کہنے لگے :
مَاسَأَلْتُ الدُّنْيَا مَنْ يَّمْلِكُهَا، فَكَيْفَ أَسْأَلُهَا مَنْ لَّا يَمْلِكُهَا؟”
میں نے دنیا تو اُس سے بھی نہیں مانگی ہے جس کی یہ ملکیت ہے پھر بھلا میں اُس شخص سے دنیا کیوں کر طلب کر سکتا ہوں جس کا وہ خود مالک نہیں؟”
یہ کہہ کر اپنے گھر کی طرف چل دیئے اور ہشّام بن عبدالملک اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔
(ابن الاشرف💓)