تحریک ریشمی رومال
10 اگست 1916ء
تحریک ریشمی رومال
10 اگست 1916ء کو ایک تحریک کا انکشاف ہوا, جوحکومت کی فائلوں میں ریشمی رومال کی سازش کے نام سے معروف ہے لیکن یہ ایک آزادئ تحریک کا حصہ تھا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان پر شمال مغربی سرحد سے ایک بھر پور حملہ کیا جائے اور جیسے ہی یہ حملہ ہو، ہندوستان کے مسلمان جہاد کے لئے کمر بستہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں اور بڑی آسانی کے ساتھ مختصر مدت میں حکومتِ برطانیہ کا اقتدار ختم کر دیا جائے۔
اس تجویز کو رو بہ عمل لانے کے لئے مولانا عُبیداللّٰہ سندھی جو 1913ء میں مسجد فتح پوری کے اندر انگریزی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو عربی کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ جن کے نام عبداللّٰہ,فتح محمد اورمحمد علی تھے، اگست 1915ء میں شمال مغربی سرحد کو عبور کیا۔
مولانا عبیداللّٰہ سندھی سکھ مذہب کو ترک کرکے مسلمان ہوئے تھے اور صوبہ پولی کے ضلع سہارن پور کے ایک قصبے کے دینی مدرسے دارالعلوم دیوبند سے سندِ فضلیت حاصل کی تھی۔ مولانا وہاں بھی حکومت کے خلاف تحریک چلایا کرتے تھے اور جلد ہی انہوں نے دارالعلوم کے عملے کے کچھ اساتذہ اور طلباء کو اپنا ہم خیال بنالیا۔
ایک بڑی ہستی دار العلوم کے صدرِ مدرّس شیخ الہند مولانا محمود حسن بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
مولانا عبیداللّٰہ چاہتے تھے کہ ہندوستان کے اندر حکومت برطانیہ کے خلاف دارالعلوم دیوبند کے طلباء اور اساتذہ کی رفاقت اور معیّت میں ایک ہمہ گیر جذبہ پیدا کر دیا جائے اور ایک ایسی تحریک چلائیں جو سارے ہندوستان میں انقلاب برپا کر دے۔
18 ستمبر 1915ء کو مولانا محمود حسن نے ایک شخص محمد میاں کو سرحد پار روانہ کر دیا اور خود اپنے چند شاگردوں اور دوستوں کے ساتھ ہندوستان میں رہائش چھوڑ کر حجاز مقدس روانہ ہو گئے۔
اسی زمانے میں عبیداللّٰہ نے دہلی کی مسجد فتح پوری میں جدید تعلیم یافتہ طبقے کوعربی پڑھانے اور علومِ اسلامیہ سے روشناس کرانے کے لئے ایک مدرسہ قائم کیا اور دو کتابیں شائع کیں۔ جن میں مسلمانوں کو جدّوجہد کی تلقین کی گئی تھی۔
مولانا عبیداللّٰہ اور ان کے ساتھی پہلے تو ہندوستان میں ان لوگوں کے پاس گئے جو مذہبی جوش و جذبہ دیوانگی کی حد تک رکھتے تھے۔ اس کے بعد یہ لوگ کابل چلے گئے۔ اور ترکی, جرمن مشن کے ممبروں سے ملاقات کی۔ ان سے تبادلہ خیال کیا۔
اسی دوران محمد میاں بھی یہاں پہنچ گئے۔ وہ پہلے عربستان گئے۔ 1916ء میں حجاز کے ترکی گورنر غالب پاشا نے جو اعلان جہادِ عام شائع کیا تھا۔ اسے لے کر کابل آئے اور راستے میں اس جہاد نامے کی نقلیں تقسیم کرتے آئے۔
مولانا عبیداللّٰہ اور ان کے ساتھیوں کی تجویز تھی کہ حکومتِ برطانیہ کو ہندوستان سے فنا کر کے وہاں ایک عارضی قومی حکومت قائم کی جائے۔ وہاں ایک اور شخص راجہ مہندرا پرتاب مسلم تہذیب و معاشرت اور تمدن سے اتنے متاثر تھے کہ بلا تکلف مسلمانوں کی نماز باجماعت میں شریک ہو جایا کرتے تھے۔ آزادئ ہند کے بعد انہیں وطن واپس آنے کی اجازت ملی۔ چنانچہ ان کو عارضی حکومت کا صدر منتخب کیا گیا۔
مولانا عبیداللّٰہ سندھی کے ایک جاننے والے لالہ ہردیال (جو کسی زمانے میں انقلابی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے) کا کہنا تھا کہ تجاویز تیار کرنے میں اسے غیر معمولی کمال حاصل ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ کسی بڑی سلطنت کا فرمانروا ہے۔
چنانچہ مولانا عبیداللّٰہ کے بارے میں یہ طے ہو گیا کہ یہ آزاد ہندوستان کی کابینہ میں ایک با اثر ممبر ہونگے۔ اس گروپ کے ایک اور رکن برکت اللّٰہ ریاستِ بھوپال کے رہنے والے تھے۔ وہ ایک معمولی شخص کے بیٹے تھے اور ٹوکیو میں اُردوزبان کے پروفیسر تھے۔ انہوں نے ملک وملّت کے لئے جو مصیبتیں جھیلیں، آج ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
چنانچہ مولانا برکت اللّٰہ کے بارے میں طے ہوا کہ انہیں آزاد ہندوستان کا وزیرِ اعظم بنایا جائے گا۔
عارضی حکومت کے ممبروں نے افغانستان میں اپنا کام جاری رکھا اور رُوسی ترکستان کے فرمانروا اور زار روس کو مراسلے بھیجے کہ یہ دونوں ممالک برطانوی حکومت سے تعلقات منقطع کر کے اس سلطنت کے خلاف ان کی مدد کریں۔
یہ خطوط کسی طرح برطانیہ کے ہاتھ لگ گئے ۔ جو سونے کے پتر پر لکھے گئے ۔ مولانا عبیداللّٰہ نے ترکی حکومت سے رابطہ کرنے کے لئے اپنے دیرینہ ساتھی محمود حسن کو مکہ معظمہ بھیجا۔
جولائی 1916ء کو میاں محمد انصاری نے حیدر آباد سندھ کے ایک شخص عبد الرحیم کو ایک ہدایت نامہ کے ساتھ بھیج دیا, جس میں التماس کی گئی تھی کہ کسی قابلِ اعتماد حاجی کے ذریعہ یہ خط مکّہ معظمہ میں محمود حسن تک پہنچا دے۔ یہ خطوط زرد رنگ کے ریشمی کپڑے پر بہت خوش خط لکھے گئے تھے۔ ان خطوط میں خدائی فوج کا بھی ذکر تھا۔ اس فوج کے بارے میں یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ اس کے لئے ہندوستان میں سپاہی بھرتی کئے جائیں اور مسلمان حکمرانوں کے مابین اتحاد اور دوستی اور تجارت کے جذبات پیدا کئے جائیں۔
اس فوج کا صدر دفتر مدینہ منورہ تجویز کیا گیا تھا۔ اس کا سالار اعلٰی محمود حسن ( شیخ الہند) کو بنایا گیا تھا۔
دوسرے صدر دفتر مقامی افسروں کے ماتحت قسطنطنیہ, تہران اور کابل میں قائم کیے گئے۔ کابل میں فوج کی سالاری مولانا عبیداللّٰہ سندھی کو سونپی گئی۔
لاہور سے بھاگے ہوئے طالب علموں میں سے ایک میجر جنرل، ایک کرنل اور چھ لیفٹینٹ تجویز ہوئے۔
دسمبر 1916ء کو اس خدائی فوج، عارضی حکومت اور انقلابی جماعت کے چار آدمی برطانیہ کے ہاتھ آگئے۔ غالب پاشا بھی جس نے اعلان شائع کیا تھا۔ اس اعلان جہاد میں کہا گیا تھا۔
ایشیا، یورپ اور افریقہ کے مسلمان ہر قسم کے اسلحہ سے آراستہ ہو کر خدا کے راستے میں جدوجہد کے لئے میدان میں نکل آئے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ترکی فوج اور مجاہدین کو اسلام دشمنوں پر غلبہ حاصل ہو گیا ہے پس اے مسلمانو! اس ظالم عیسائی حکومت پر حملہ کر دو۔ جس نے تمہیں بے بس کر رکھا ہے۔ اپنی پوری قوت دشمن کو فنا کرنے اور اسے موت کے گھاٹ اتارنے میں صرف کردو۔
تمہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ محمود حسن آنندی جو دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس تھے ہمارے پاس تشریف فرما ہیں ۔ انہوں نے ہم سے صلاح کی اور ہم نے ان کی رائے پر صاد کیا۔ اگر وہ یا ان کا کوئی نمائندہ تمہارے پاس آئیں تو ان پر پورا اعتماد کرو اور جان و مال سے ان کی مدد کرو۔
مولانا محمود حسن کو جو حجاز مقدس میں مقیم تھے, شریفِ مکہ نے اربع کی بین الاقوامی اور اصولی خلاف ورزیاں کر کے گرفتار کیا اور برطانوی حکام کے حوالے کر دیا۔ جنہوں نے انہیں مالٹا بھیج دیا۔ جہاں وہ ایک عرصے تک نظربند رہے۔
انگریزوں کو تہس نہس کرنے کے سلسلے میں مسلمان انقلابیوں نے صرف ہندوستان ہی کی سرزمین منتخب نہیں کی تھی بلکہ ہر خطۂ ارض پر جو کچھ بھی ان کے بس میں تھا اور جو بس میں نہیں تھا, کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ ہندوستان میں مسلمانوں نے جو غدر پارٹی قائم کی تھی۔ اس میں کافی غیر مسلم بھی شریک کر لئے تھے یہ غدر پارٹی پورے جوش اور سرگرمی کے ساتھ مصروفِ عمل تھی اور امریکہ, انگلستان, جرمنی اور دوسرے ممالک میں خفیہ اور زمین دوز تحریکیں چلا رہی تھی۔ اس کی ایک شاخ برما میں بھی قائم ہوئی تھی۔ اور یہاں بھی مسلمانوں نے خاصے کارنامے انجام دیئے۔
لالہ ہردیال 1919ء میں قسطنطنیہ تشریف لے گئے وہاں ایک ہندوستانی مسلمان ابوسعید سے ان کی راہ و رسم پیدا ہوئی۔
جہان اسلام کے نام سے جو انقلابی اخبار غدر کی ترغیب کے لئے نکلا تھا، اس کے اردو حصے کے انچارج بھی یہی صاحب تھے۔ حکومتِ ترکیہ سرکاری پیمانے پر بھی انگریزوں کے دام ہمرنگ زمین کو کاٹنے کی کوشش کر رہی تھی۔
ینگ ترکی پارٹی کے ایک سرکردہ ممبر توفیق بے 1913ء میں رنگون آئے اور وہاں کے ایک سوداگر ملّا احمد داؤد کو جو انگریزوں کا دشمن اور ہندوستان کی سرزمین کو فرنگی نفوس سے خالی کرا لینے کا زبردست حامی تھا، ترکیہ کا قونصل بنا رہا۔ ترکیہ نے جس وقت اعلانِ جنگ کیا اور برطانیہ کے بجائے جرمنی کا ساتھ دیا، اس وقت بھی ہلال احمر کے دو ہندوستانی
ممبر حکیم فہیم علی اور علی احمد صدیقی رنگون (برما) آئے اور جنگ بلقان کے سلسلے میں ترکوں کی امداد و اعانت کے لئے انہوں نے زبردست جدوجہد کی۔
رنگون کی انقلابی سرگرمیوں کے نتیجہ خیز ہونے کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ نومبر 1913ء بلوچ رجمنٹ بمبئی سے وہاں پہنچی لیکن غدر پارٹی اور انقلابی پارٹیوں کی سرگرمیوں سے متاثر ہو کر جنوری 1915ء میں آمادۂ غدر ہوگئی لیکن اعلٰی حکّام کو مخبروں سے اطلاع مل چکی تھی۔ انہوں نے تدارک کر لیا تھا پھر بھی دو سو آدمی اس رجمنٹ کے سزا یاب ہوئے۔
دسمبر 1914ء میں گجرات کے رہنے والے مسلمان قاسم منصور کے خط پکڑے گئے جن سے معلوم ہوا کہ ملایا کی ہندوستانی فوج ( جو زیادہ تر مسلمانوں پر مشتمل تھی ) انگریزوں سے لڑنے اور ترکوں کی تائید و حمایت میں ہتھیار اٹھانا اور اسلام کی حرمت پر جان دینے کو تیار ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ جلد از جلد ایک جہاز سنگاپور بھیج دیا جائے۔
یہ تجویز بھی عمل میں نہ آ سکی کیونکہ انگریزوں نے مخبروں کا جال چہار طرف پھیلا رکھا تھا اور وہ انہیں پل پل اور رتی رتی کی خبریں پہنچایا کرتے تھے۔ چنانچہ ملّا احمد داؤد جہاز تو رنگون سے سنگاپور نہیں بھیج سکے۔ البتہ اس قوم کو کسی دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا۔
*مذکورہ واقعات سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ مسلمانوں نے انگریزوں کے ابتدا سے نجات حاصل کرنے چنگیزی افرنگ کا مقابلہ کرنے بیرونی اور اندرونی دشمنانِ اسلام سے بے سروسامانی اور تہی مائیگی کے باوجود عہدہ برآ ہونے میں کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہیں کیا۔
(ابن الاشرف💓)