حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا
حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری بیوی تھیں۔جن کے بطن سے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ذبیح اللّٰہ پیدا ہوئے۔ حضرت سارہ رضی اللّٰہُ عنہا اس وقت تک بے اولاد تھیں چنانچہ حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا کے ہاں فرزند کی پیدائش سے افسردہ رہنے لگیں۔
ایک دن حضرت سارہ رضی اللّٰہُ عنہا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا اور ان کے بچے کو کسی اور جگہ چھوڑ آئیں ،یہاں نہ رکھیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اس مطالبے سے پریشان ہوئے۔ لیکن منشائے الٰہی یہی تھی کہ حضرت سارہ رضی اللّٰہُ عنہا کا مطالبہ پورا ہو۔ آخر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دونوں ماں بیٹوں کو ساتھ لیا اور ایک لق و دق میدان میں اس مقام پر لا کر چھوڑا جہاں آج کل کعبۃ اللّٰہ ہے۔
جب اس بے آب و گیاہ میدان میں ماں بیٹوں کو چھوڑ کر واپس جانے لگے تو حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا نے پوچھا
ہمیں چھوڑ کر آپ کہاں چلے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام خاموش رہے۔
حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا نے پوچھا
کیا یہ حکم باری تعالیٰ ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اثبات میں سر ہلایا اور ماں بیٹے کو خدا کے سپرد کر کے حضرت سارہ رضی اللّٰہُ عنہا کے پاس واپس تشریف لے گئے۔
حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا کے پاس کھجوروں کا ایک تھیلا اور پانی کا ایک مشکیزہ تھا۔ کچھ وقت تو کھجوروں اور پانی نے ساتھ دیا۔ جب دونوں چیزیں ختم ہوگئیں تو حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا بہت پریشان ہوئیں۔
صحرائے عرب کی خوفناک گرمی نے حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا اور اُن کے معصوم بچے کو ہلکان کر دیا۔ پیاس سے بے تاب ہو کر اِدھر اُدھر پانی کی تلاش میں دوڑِیں۔ تھوڑی دُور دو پہاڑیاں صفا اور مروہ تھیں۔ دونوں کے درمیان سات پھیرے کئے کہ شاید پانی میسّر آ جائے لیکن مایوس لوٹیں۔
آخری دفعہ جب کوہِ مروہ سے اُتریں اور بچے کے پاس پہنچیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ بچے نے جہاں اپنی ایڑیاں رگڑی تھیں وہاں اللّٰہ تعالیٰ نے شفاف اور شیریں پانی کا چشمہ جاری کر دیا ہے۔ حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا سجدۂ شکر بجا لائیں۔ چشمے کے گرد مٹی کا احاطہ بنایا۔ خود بھی سیر ہو کر پانی پیا اور بچے کو بھی پلایا۔
چند دن بعد ایک قافلے کا گزر اس طرف سے ہوا۔ اس چٙٹیٙل صحرا میں پانی کا چشمہ دیکھ کر قافلے والے حیران رہ گئے۔ حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا نے انہیں سارے حالات بتائے۔ قافلے کے لوگ طبعاً شریف النفس تھے۔ انہوں نے ساری سرگزشت سن کر حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا سے کہا کہ
اگر آپ اجازت دیں تو ہم یہاں آباد ہو جائیں۔ ہر سال پانی کے معاوضے میں آپ کو عشر دیا کریں گے-
حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا نے ان کی درخواست قبول کر لی اور وہ قافلہ وہیں آباد ہو گیا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے کاروبار میں ایسی برکت دی کہ یہ تمام بستی نہایت خوشحال ہو گئی۔ تمام لوگ حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی از حد عزت کرتے تھے۔
حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا نے بھی دوسرے لوگوں کی طرح بھیڑ بکریوں کے گلے پالے اور ان کی تجارت شروع کر دی۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی تجارت میں برکت دی آباد کار بھی ہر سال اُنہیں عُشر دیتے۔ غرضیکہ نہایت آسودہ حالی اور اطمینان کے ساتھ ان کی بسر اوقات ہونے لگی۔ پانی کی وجہ سے دُور دُور سے لوگ آ کر اس جگہ آباد ہونے لگے اور چند سالوں کے اندر یہ مقام ایک خاصی بڑی بستی کی صورت اختیار کر گیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی یاد اکثر ستاتی، لیکن ضبط سے کام لیتے۔
دل میں کسی قدر اطمینان بھی تھا کیونکہ انہیں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت دی گئی تھی کہ ہم اس جنگل کو اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد سے آباد کریں گے۔
کئی سالوں کے بعد فرزند کو دیکھنے کے لیے بے تاب ہو گئے۔ حضرت سارہ رضی اللّٰہُ عنہا سے کہا کہ
ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا اور اسمعیل علیہ السلام کو دیکھے بغیر اب نہیں رہ سکتا۔
حضرت سارہ رضی اللّٰہُ عنہا نے کہا ۔
بے شک انہیں دیکھ آیئے لیکن شرط یہ ہے کہ گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے ان سے مل لیں اور وہاں قیام نہ کریں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ شرط قبول کر لی اور اس مقام کی طرف روانہ ہو گئے جہاں کئی برس بیشتر حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کو چھوڑا تھا۔ جب وہاں پہنچے تو ایک بے آب و گیاہ صحرا کی جگہ ایک شاداب و سر سبز آبادی دیکھ کر بے حد مسرور ہوئے۔ لوگوں سے ساری کیفیت معلوم ہوئی۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے بھی ملاقات ہوئی لیکن وہ انہیں نہ پہچان سکے۔
پھر حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا کے مکان پر تشریف لائے۔ انہوں نے دیکھ کر سلام کیا اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو بتایا کہ یہ تمہارے باپ ہیں۔ حضرت اسمٰعیل نے نہایت ادب سے سلام کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے انہیں فرطِ محبت سے گلے لگا لیا۔
اس کے بعد حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا نے تمام حالات سنائے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا
بے شک اللّٰہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد فرماتا ہے۔ حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا نے بہت اصرار کیا کہ آپ گھوڑے سے اتر کر کچھ دیر آرام فرمائیں لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے معذوری کا اظہار کیا اور فرمایا کہ میں سارہ رضی اللّٰہُ عنہا سے یہاں قیام نہ کرنے کا وعدہ کر کے آیا ہوں۔ حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا نے عرض کی
آپ کا تمام لباس اور جسم گردو غبار سے اٹا ہوا ہے ۔ آپ زمین پر قدم نہ رکھیں ۔ میں ایک پتھر لا کر رکھ دیتی ہوں اس پہ کھڑے ہو جائیں تا کہ میں آپ کا ہاتھ منہ دھلا دوں-
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ بات قبول کی اور پتھر پر کھڑے ہو کر ہاتھ منہ دھویا اور اس پتھر کو اللّٰہ تعالیٰ نے مصلّے کا نام دیا۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام واپس تشریف لے گئے اور حضرت سارہ رضی اللّٰہُ عنہا کو سارے حالات سنائے۔
اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام وقتا فوقتاً مکہ تشریف لاتے اور حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا اور حضرت اسمعیل علیہ السلام سے مل کر چلے جاتے۔
ایک دفعہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام ،حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے ملنے آئے تو آپ علیہ السلام کو خواب میں حکم ہوا کہ اے ابراہیم! قربانی کر-
صبح اٹھ کر منٰی کے مقام پر سو دنبوں کی قربانی کی۔ دوسری رات پھر وہی خواب دیکھا۔ صبح اٹھ کر خلیل اللّٰہ نے سو اونٹ قربان کئے اور سمجھے کہ میں نے حکمِ الٰہی کی تعمیل کر دی، لیکن تیسری رات پھر وہی خواب دیکھا۔ بہت پریشان ہوئے اور سوچنے لگے کہ کون سی چیز مجھے سب سے پیاری ہے کہ اسے خدا کی راہ میں قربان کر دوں۔
آخر خیال آیا کہ اسمٰعیل علیہ السلام دنیا میں مجھے سب سے زیادہ عزیز ہیں۔ اس کو راہِ خدا میں قربان کر دوں۔ اپنے ارادے کا اظہار حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے کیا۔
انہوں نے جواب دیا
ابا جان! اللّٰہ تعالیٰ کا حکم بجا لائیے۔ انشاءاللّٰہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔
چنانچہ خلیل اللّٰہ اپنے سعادت مند فرزند کو ساتھ لے کر منٰی پہنچے۔
چلتے وقت حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا کو شیطان نے بہکایا کہ ابراہیم علیہ السلام تمہارے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے ساتھ لے جا رہا ہے۔ حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا نے نہایت استقلال کے ساتھ جواب دیا کہ
,اے ملعون! دُور ہو- اگر اللّٰہ کا یہی حکم ہے تو اس کے سامنے ہمارا سر تسلیم خم ہے۔
راستے میں شیطان نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بہکانے کی تین مرتبہ کوشش کی لیکن ناکام رہا۔
منٰی پہنچ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمٰعیل کو زمین پر لٹایا اور آنکھوں پر پٹی باندھ لی تا کہ شفقتِ پدری حکمِ الٰہی کی تعمیل میں مانع نہ ہو۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے لختِ جگر کے گلے پر پوری طاقت سے چھری پھیر دی لیکن جب آنکھوں سے پٹی کھولی تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی جگہ ایک مینڈھا ذبح کیا ہوا پڑا ہے اور حضرت اسمٰعیل صحیح و سالم مسکرا رہے ہیں۔ باری تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہوا۔
اے ابراہیم ! تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا۔ ہم نیکوں کو ان کی نیکی کا اسی طرح صلہ دیا کرتے ہیں-
اسی واقعہ کی یاد میں مسلمان ہر سال عید الاضحیٰ مناتے ہیں۔ کعبہ میں پہنچ کر حج کرتے ہیں اور قربانیاں دیتے ہیں۔
جب حضرات ابراہیم علیہ السلام تیسری دفعہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے ملنے آئے تو انہیں خانہ کعبہ کی تعمیر کا حکم ہوا۔ چنانچہ دونوں باپ بیٹا مل کر تعمیرِ کعبہ میں مصروف ہو گئے۔ یکم ذیقعد کو تعمیر شروع کی اور 25 ذیقعد کو مکمل کی۔ بارگاہِ الٰہی سے حکم ہوا
ترجمہ!
اور عام طور پر لوگوں کو سنا دو کہ وہ اس بیت اللّٰہ کا حج کرنے کو پیدل اور دبلے اونٹوں پر سوار ہو کر دُور دراز کی مسافت طے کر کے آئیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کی
میری آواز نہیں پہنچے گی۔ رب کریم نے فرمایا۔
تیرا کام پکارنا ہے اور پہنچا دینا ہمارا کام ہے۔
چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مخلوقِ خدا کو پکارا اور اللّٰہ تعالیٰ نے دنیا کے گوشے گوشے میں ان کی آواز پہنچا دی۔
آج صدیاں گزر جانے پر بھی لاکھوں مسلمان دنیا کے کونے کونے سے کھنچ کر ہر سال کعبہ پہنچتے ہیں اور حجِ بیت اللّٰہ سے مشرف ہوتے ہیں۔
حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی نسل سے ہی نبیِ آخرالزماں سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰﷺ رونق افروز ہوئے۔
ابن الاشرف 💓