رائٹ برادران Wright Brothers
پیدائش ؛
ولبر رائٹ : 1867ء (امریکہ)۔
اورول رائٹ : 1871ء (امریکہ)۔
وفات :
ولبر رائٹ : 1912ء (اوہائیو۔امریکہ)۔
اورول رائٹ : 1948ء (اوہائیو۔امریکہ)۔
“” انہوں نے 12 سیکنڈ میں تاریخ کا رُخ بدل دیا “”
کیا آپ کا کوئی بیٹا ہے ؟ اگر ہے تو کیا آپ کو کبھی یہ احساس ہوا کہ آپ کا دیا ہوا کوئی کھلونا یا کتاب اس کی زندگی بدل سکتی ہے؟۔
میں ایک مثال پیش کرتا ہوں ؛
1878ء میں ایک پادری جو کسی مذہبی کام کے سبب سفر کر رہا تھا۔ اس نے اپنے دو لڑکوں کے لیے ایک مشینی کھلونا خرید لیا۔ جب وہ گھر واپس آیا تو اُس کے لڑکے اُسے ملنے کی خاطر بھاگے۔ لڑکوں کو دیکھ کر اس نے کہا :
“بیٹو !!
میں تمہارے لیے ایک چیز لایا ہوں، لو اِسے کیچ کرو”۔
اور اُس نے ایک چیز اُن کی طرف پھینک دی۔ مگر اُس چیز نے لڑکوں کی سٙمت میں جانے کی بجائے ایک ناقابلِ یقین بات کی۔ وہ چھت کی سٙمت اُڑنے لگی اور چند لمحے پٙھڑ پٙھڑا کر فرش پر گِر پڑی۔ لڑکے حیرت سے پٙھٹی آنکھوں سے اُسے پکڑنے کے لیے بھاگے۔ وہ ایک اُڑنے والا مشینی کھلونا تھا جو تار، بانس اور کاغذ کا بنا ہوا تھا۔ اُس کھلونے نے اُن لڑکوں میں پرواز کرنے کا ایک ایسا شوق پیدا کر دیا جو ایک ایسی اُڑان مشین کی ایجاد کا سبب بنا جس نے ہم سب کی زندگیوں پر گہرا اثر کیا ہے۔ سینکڑوں برس پہلے بارود کی ایجاد کے سِوا کسی دوسری ایجاد نے انسانی معاشرت کو اِس قدر تبدیل نہیں کیا۔
اُن لڑکوں کا نام ولبر رائٹ اور اورول رائٹ تھا۔
وہ لڑکے اُس اُڑن کھلونے سے اتنی دیر تک کھیلتے رہے جب تک کہ وہ ٹوٹ نہ گیا۔ چونکہ اُن کے پاس دوسرا کھلونا خریدنے کے لیے پیسے نہ تھے لہذا انہوں نے خود ہی اس قسم کا کھلونا بنا لیا۔ بعد میں انہوں نے پتنگیں بنانی شروع کر دیں جو اِس قدر عمدہ ہوتیں کہ سارے محلے کے لڑکے انہی سے خریدتے۔
اس وقت سے رائٹ برادران کے دل میں اُڑنے کی خواہش کروٹیں لینے لگی وہ گھنٹوں پُشت کے بٙل سیدھے لیٹے اپنی پتنگوں کو اُڑتے دیکھتے تھے۔ وہ چڑیوں اور کبوتروں کو اُڑتا دیکھتے رہتے اور یہ بھی دیکھتے کہ کس طرح عُقاب ہوا کی لہروں پر بغیر بازو ہِلائے اُڑتا رہتا ہے۔
ایک دن اخبار میں انہوں نے ‘برلن’ کے ایک انجینیئر “ٹولینن تھال” کی خبر پڑھی جو پرواز کرنے کی کوشش میں ہلاک ہو گیا تھا اس خبر نے انہیں بے حد متاثر کیا۔
یہ شخص یعنی تھال کئی برس سے اپنے دونوں شانوں سے بڑے بڑے پٙر باندھ کر ایک پہاڑی سے نیچے کی جانب اُڑا کرتا تھا۔ اگرچہ وہ نیچے کی سٙمت اُڑ سکتا تھا لیکن یہ بھی تو اُڑنے کے مترادف تھا اور کوئی دوسرا آدمی اس کی ہمسری نہ کر سکتا تھا۔
اس خبر نے بھائیوں کی زندگی کی کایا پلٹ دی کیونکہ لینن تھال نے ثابت کر دیا تھا کہ ایک عقاب کی طرح انسان بھی ہوا کے دوش پر اُڑ سکتا ہے۔
دونوں بھائیوں کو ایک ایسا خیال سُوجھ گیا تھا جو جلد ہی اُن کی زندگی کی قوتِ متحرکہ بن گیا۔ اُنہوں نے واشنگٹن میں “سمتھ سونٹن” ادارے کو خط لکھا اور اس سے ان تمام مضامین کی فہرست منگوا لی جو انسانی پرواز کے بارے میں لکھے گئے تھے۔ وہ بڑے جوش و خروش سے یہ مضامین پڑھتے رہتے۔
آخر کار چار برس کے مطالعے کے بعد اُنہوں نے تفنّنِ طبع کے لیے دھات کا ایک پتنگ نما صندوق بنانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کبھی کوئی ایسی مشین بنانے کا خواب نہ دیکھا تھا جو زمان و مکان کے تصوّر اور دنیا کے جغرافیے میں انقلاب برپا کر دے گی۔
لیکن ان کی ایجاد نے ہُو بہو یہی کچھ کیا۔ کیونکہ ہوائی جہاز کے ذریعے اب ہم دنیا کے دوسرے کنارے تک فقط 60 گھنٹوں میں پہنچ سکتے ہیں۔ ہوائی جہاز نے دنیا کی جسامت اب ہماری نظروں میں 1/5 حصہ کر دی ہے۔ اور بعض لحاظ سے 1/10 حصہ۔
کیا رائٹ برادران خود کو سائنسدان یا مُوجِد تصور کرتے تھے ؟ ہرگز نہیں۔ جس طرح دوسرے لوگ اپنے فالتو وقت کے لیے کوئی نہ کوئی مشغلہ اختیار کر لیتے ہیں اسی طرح انہوں نے ہوا میں پرواز کرنے کا مشغلہ اپنا رکھا تھا۔
چونکہ انہیں اپنی روزی بھی خود ہی کمانی تھی لہذا انہوں نے ڈی ٹون(اوہائیو) میں سائیکلوں کی فروخت اور مرمت کی ایک دوکان کھول رکھی تھی۔ رات کے وقت دوکان بند کرنے کے بعد وہ ہوا میں پرواز کرنے کے تجربے میں مصروف ہو جاتے۔
ان کے پہلے پتنگ نما صندوق پر تین پونڈ صٙرف ہوئے۔ اس کے اوپر دو بازو تھے جو ایک دوسرے کے اوپر تھے۔ اس کا کوئی جسم اور کوئی دُم نہ تھی، نہ ہی اس میں کسی قسم کا انجن تھا۔
رائٹ برادران نے اس پتنگ نما صندوق میں اُڑنے کی کوشش کے سلسلے میں اپنی تعطیلات کا وقت منتخب کیا۔ انہیں موسمیات کے دفتر سے پتہ چل گیا کہ شمالی کیلیفورنیا میں “کل ڈیول ہِل” جگہ اُڑنے کے لیے بہترین ثابت ہوگی۔
وہاں ہر وقت سمندر کی سمت سے تیز ہوا چلتی رہتی ہے اور ساحل کی ریت بھی بہت نرم ہے۔ پہاڑی پر سے جب وہ اپنے پتنگ نما صندوق میں بیٹھ کر نیچے آئے تو اُنہیں کوئی حادثہ پیش نہ آیا مگر وہ چند سیکنڈ سے زیادہ ہوا میں نہ ٹھہر سکے۔
اگلے برس انہوں نے پہلے کی نسبت بہتر اور بڑا صندوق بنایا۔ اس مرتبہ بھی نتائج کچھ حوصلہ افزا نہ تھے اور رائٹ برادران نے اعلان کر دیا کہ انسان ابھی ایک ہزار برس تک ہوا میں پرواز نہیں کر سکے گا۔
وہ ہوا میں پرواز کرنے کی جدوجہد ترک کرنے پر تیار ہو گئے۔
اور ممکن ہے آج ہوائی جہاز ایجاد نہ ہوا ہوتا اگر ایک انجینیئر ان کی حوصلہ افزائی نہ کرتا۔ اس انجینیئر کا نام “اکٹیو جنیوٹ” تھا، اور اس نے اُڑن مشینوں میں ترقی نامی ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ اس کتاب نے اسے ہوائی پرواز پر ایک اتھارٹی بنا دیا تھا۔
رائٹ برادران کی پرواز کے وقت وہ بھی وہاں موجود تھا۔ ان کی مایوسی کے باوجود اس نے انہیں تشفی دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دوری کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور وہ دنیا کے دو کامیاب ترین پرواز کرنے والے ہیں۔
اس مشہور انجینیئر کی زبان سے ستائش کے یہ الفاظ سن کر انہیں حیرت کے ساتھ ساتھ خوشی بھی ہوئی۔ حیرت اس لیے کہ انہوں نے کبھی کسی کالج کی شکل نہ دیکھی تھی اور نہ ہی کوئی فنی تربیت حاصل کی تھی۔
جب اس نے ولبر رائٹ کو اپنے ہوائی تجربے کے بارے میں شکاگو کی ویسٹرن سوسائٹی آف انجینیئرز کے سامنے تقریر کرنے کی دعوت دی تو ان بھائیوں کو اور بھی حیرت ہوئی۔
ولبرائٹ اپنی شکاگو والی تقریر میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ ہوائی جہاز کے بازوؤں پر ہوا کا جو اثر ہوتا ہے، اس کے متعلق سائنس دانوں نے جس قدر نقشے اور انداز تیار کیے ہیں وہ سب کے سب بالکل غلط ہیں۔
لیکن اُسکا اورول رائٹ اس سخت تنقید پر چوکنا ہو گیا اور اس نے احتیاط کے طور پر سائنس دانوں کے تیار کیے ہوئے نقشے اور اعداد و شمار کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے لکڑی کا 18 انچ لمبا ایک صندوق لیا، اور اس کا منہ دو طرف سے کھول دیا اور اس کے ایک سرے پر ہوا پیدا کرنے کے لیے ایک مشینی پنکھا لگا دیا۔
اس صندوق کے منہ پر شیشہ چسپاں کر دیا تھا کہ وہ اندر جھانک کر یہ معلوم کر سکے کہ ہوا اس چھوٹے سے ہوائی جہاز کے مختلف سائز کے پروں پر کیا اثر کرتی ہے۔ یہ بات اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ وہ دنیا کی پہلی ہوائی سرنگ بنا رہا ہے اور سائیکل بنانے والا شخص کبھی یہ تصور بھی نہ کر سکتا تھا کہ ہوا کے دباؤ کے متعلق نامور سائنسدانوں کے جمع کیے ہوئے اعداد و شمار اور نقشوں کو وہ غلط ثابت کر دے گا۔
اورول رائٹ نے ان سرنگوں سے جو علم حاصل کیا اس کی عدم موجودگی میں نہ تو رائٹ برادران اور نہ ہی دنیا کا کوئی دوسرا شخص ہوائی جہاز بنا کر اڑا سکتا تھا۔
ان تجربوں نے ان فنی حقائق کا انکشاف کیا جن پر موجودہ دٙور کے ہوائی سفر کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اگر ولبر رائٹ نے شکاگو میں تقریر نہ کرنی ہوتی تو عین ممکن ہے کہ رائٹ برادران نے یہ تجربے ہرگز نہ کیے ہوتے۔
رائٹ برادران نے اپنے آخری پتنگ نما صندوق میں بیٹھ کر سینکڑوں کامیاب پروازیں کیں لیکن انہیں اپنے اُڑن صندوق کے لیے ہر جگہ مناسب ہوا نہ ملتی تھی۔ عموماً ہوا یا تو ہلکی یا پھر تیز اور تھپیڑے دار ہوتی اخر تنگ آ کر انہوں نے ایک فیصلہ کیا جس نے پرواز سے متعلق انسانی جدوجہد کی تاریخ میں انقلاب پیدا کر دیا۔
وہ یہ فیصلہ تھا کہ اُنہوں نے اپنی ہوا بنانے کا فیصلہ کیا۔
کس طرح؟۔
انہوں نے اپنے جہاز میں پیٹرول سے چلنے والا انجن نصب کرنے اور برقی تاروں کے ذریعے اسے جہاز کے پنکھوں کے ساتھ جوڑنے سے ہوا بنانے کا سوچا۔
چونکہ کوئی مینوفیکچرز اتنے ہلکے وزن کے انجن نہ بناتا تھا۔ لہذا انہوں نے خود ہی رات کے وقت اپنی دوکان کے اندر ایک ہلکا گیس کی مدد سے چلنے والا 12 ہارس پاور کاایسا انجن تیار کیا جسکا وزن صرف 152 پاونڈ تھا۔ اسمیں انہوں نے پروپیلر(پنکھے) لگائے جنکا پھیلاو 8 فِٹ تھا لیکن یہ انجن بھی انکی فلائٹ کو کامیابی سے ہمکنار نہ کر سکا۔ چنانچہ انہوں نے دوسری کوشش کی۔ اُنہوں نے اس بے انجن طیارے میں اصلاح کی اور ایک ایسا جہاز تیار کیا جسکا وزن انجن سمیت 600 پاونڈ تھا۔
اس ساری مشین اور انجن پر اس کا خرچ 60 پونڈ سے کم آیا۔
اس مشین کے ذریعے انہوں نے 17 دسمبر 1903ء کو شمالی کیلیفورنیا میں “کل ڈیول” پہاڑی کے مقام پر تاریخ میں پہلی انسانی پرواز کی۔ اس دن غضب کی سردی تھی لیکن اس سردی کے باوجود جب اورول رائٹ ہوائی جہاز میں سوار ہوا تو اس نے اوور کوٹ نہ پہنا ہوا تھا۔ کیونکہ وہ ہوائی جہاز پر زیادہ بوجھ نہ ڈالنا چاہتا تھا۔
10 بج کر 35 منٹ پر اورول رائٹ پیٹ کے بل رینگ کر اپنے گرجتے ہوئے طیارے میں سوار ہو گیا۔ پھر اس نے سوئچ آن کر دیا، عجیب و غریب مشین کے دہانے سے باہر کی طرف شعلے لپکنے لگے۔
ناممکن بات ممکنات میں داخل ہو گئی تھی۔ ہوا سے بھاری مشین واقعی ہوا میں اُڑنے لگی اور اس نے 120 فٹ کا فاصلہ طے کیا۔ انسانی تاریخ میں وہ نہایت اہم اور بامعنی واقعہ تھا۔ اسکے وجود اورول رائٹ نے تسلیم کیا ہے کہ اس واقعہ نے اس کے جذبات میں کسی قسم کی ہلچل پیدا نہ کی۔ وہ جانتا تھا کہ یہ عجیب و غریب چیز پرواز کرے گی اور ایسا ہو گیا۔
جبکہ دوسرے بھائی ولبر رائٹ کی پہلی فلائٹ 59 سیکنڈ تک فضا میں رہی اور وہ اپنے جہاز کو 852 فٹ کی بلندی تک لیجانے میں کامیاب ہوا اور یوں انسان نے اُڑنا سیکھ لیا۔
رائٹ برادران تاریخ کی پہلی کامیاب پرواز کے بعد واپس گھر آئے تو کیا ہوا؟۔
کیا لوگوں نے بینڈ باجے سے اُن کا استقبال کیا ؟ نہیں بالکل نہیں۔ یہ سچ ہے کہ ان کے قصبے کے ایک اخبار نے یہ خبر شائع کی مگر سرسری طور پر، جیسے وہ بالکل اہم نہ ہو۔
ایک سال کے اندر اندر رائٹ برادران 25 میل لمبی پرواز کرنے لگے لیکن وہاں کے اخباروں نے اس عجوبے کا ذکر تک نہ کیا۔ وہ اس قسم کی خبریں شائع کرنے میں مصروف رہے کہ “سائی جونیر” اپنی علالت سے صحت یاب ہو رہا ہے اور مسز سمِتھ اپنی والدہ کو مل کر واپس آ گئی ہے لیکن پرواز کرنے والی مشین کے بارے میں کسی نے ایک لفظ تک نہ لکھا۔ جس نے جغرافیہ اور فنِ جنگ کو بالکل ایک نئی شکل میں ڈھال دینا تھا۔
ایک طویل عرصے تک سائنسی رسالوں نے بھی رائٹ برادران کی اُڑن مشین کے متعلق کوئی مضمون وغیرہ شائع نہ کیا۔ اس لیے کہ یا تو وہ اسے حقیقت نہ سمجھتے یا پھر اسے کوئی اہمیت نہ دیتے تھے۔
جس پہلے رسالے نے اس اُڑن مشین کے متعلق مضمون شائع کیا وہ سائنسی رسالے کے بجائے شہد کی تجارت اور پیداوار کے گُر بتانے والا رسالہ تھا۔ تین برس تک رائٹ برادران محکمہ جنگ کو اس بات کی ترغیب دیتے رہے کہ وہ اپنا کوئی نمائندہ ان کی اُڑن مشین دیکھنے کے لیے بھیجے لیکن فوج کے کٙج رُو اور بد مزاج افسران کا ذہن یہ بات قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہ تھا کہ اڑنے والی مشین بھی ہو سکتی ہے۔
اخر پہلی پرواز سے چار برس بعد محکمہ جنگ نے ایک ہوائی جہاز خریدنے کا فیصلہ کیا۔ لہذا اس نے ٹینڈر نوٹس شائع کیے۔ ذرا غور فرمائیں۔ “ٹینڈر نوٹس” !! جب کہ اسے معلوم تھا کہ دنیا میں ہوائی جہاز بنانے والا فقط ایک ہی ادارہ ہے۔
اپنی اس کامیابی کے بعد رائٹ برادران نے رائٹ کمپنی کھولی اور 1906ء میں انہوں نے اپنا ایئر کنٹرول سسٹم رجسٹر کروایا۔ 1908ء میں ان کو امریکی فضائیہ کے لیے ہوائی جہاز بنانے کا کنٹریکٹ مل گیا۔ بعد ازاں وہ یورپ چلے گئے اور مختلف ممالک کے سربراہوں کو اپنی ہوا بازی کے کمالات دکھائے۔ امریکہ واپس آئے تو حکومت نے ان سے 30 ہزار ڈالر میں ایک ہوائی جہاز خریدا۔ حکومت نے فوج میں باقاعدہ ہوا بازی کا سکول کھولا جس میں اورول استاد مقرر ہوا۔ دونوں بھائی عمر بھر کنوارے رہے اور شادی نہ کی۔
ولبررائٹ 30 مئی 1912ء کو ٹائیفائیڈ سے عالمِ شباب میں انتقال کر گیا۔
1915ء میں اورول رائٹ نے اپنی کمپنی فروخت کر دی۔
1948ء میں اورول بھی دل لا دورہ پڑنے لے سبب مر گیا۔ وہ بے حد منکسر المزاج تھا اور دولت اور شہرت کا بالکل بھوکا نہ تھا۔ اس لیے وہ اخبار کے نمائندوں سے ملنے سے انکار کر دیتا۔
اورول رائٹ اور ولبر رائٹ کی پہلی پرواز فقط 12 سیکنڈ کی تھی لیکن وہ 12 سیکنڈ آج بھی انسانی تاریخ میں گُونج رہے ہیں۔ آخر صدیوں پرانا خواب حقیقت میں بدل گیا تھا۔ آخر انسان زمین کی زنجیریں توڑ کر ستاروں کی طرف پرواز کرنے لگا تھا۔
ان دونوں بھائیوں کی زندگی کا ایک ایک لمحہ پوری تاریخِ عالٙم کے لیے ایک زندہ مثال بن گیا۔ یہ ان دونوں بھائیوں کی شبانہ روز محنت کا نتیجہ ہے کہ ہوائی جہاز کو سامنے رکھ کر دنیا کے تیز رفتار راکٹ بنائے گئے۔ بلا شبہ یہ سارا کریڈیٹ ان دونوں بھائیوں کو جاتا ہے۔
اِبنُ الاٙشرٙف