حضرت سارہ رضی اللّٰہ عنہا
حضرت سارہ رضی اللّٰہ عنہا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پہلی بیوی تھیں۔ وہ ایک بادشاہ کی بیٹی تھیں اور عجیب حالات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عقدِ نکاح میں آئیں۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق سے ہجرت کر کے شام کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں اُن کا گزر ایک ایسے شہر میں ہوا جہاں میلے یا جشن کی کیفیت تھی۔ لوگ بیش قیمت ملبوسات سے آراستہ اِدھر اُدھر پھر رہے تھے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ ہنگامہِ طرب کیا ہے؟۔ بتایا گیا کہ یہاں کے بادشاہ کی بیٹی نے اپنا شوہر منتخب کرنے کا اعلان کیا ہے۔ چنانچہ اِس غرض سے دوپہر کے وقت سوار ہو کر وہ لوگوں کے ہجوم سے گزرتی ہے۔ ابھی تک اس کی نظرِ انتخاب کسی پر نہیں پڑی۔ اب اس کے آنے کا وقت ہوا ہی چاہتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام حیران ہو کر لوگوں کی گفتگو سن ہی رہے تھے کہ شہزادی کی سواری آ پہنچی۔ اس کی نظر اچانک حضرت ابراہیم علیہ السلام پر پڑی۔ صحت مند جسم اور چہرہ جلالِ نبوت سے منوّر۔
فوراً اعلان کر دیا کہ میری شادی اس مسافر سے ہوگی۔ شاہی کارندے اسی وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بادشاہ کے محل میں لے گئے۔ بادشاہ اپنی بیٹی کا انتخاب دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس کا خیال تھا کہ اس کا ہونے والا داماد کوئی صاحبِ ثروت ہوگا۔ اب جو سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک نادار آدمی کو دیکھا تو بہت افسوس ہوا۔
حضرت سارہ رضی اللّٰہ عنہا کو بار بار سمجھایا کہ تیرا اِس کا جوڑ نہیں ہے اپنے خیال سے باز آجا۔ لیکن حضرت سارہ رضی اللّٰہ عنہا اپنے قول پر جمی رہیں۔ چنانچہ مجبوراً بادشاہ نے اپنی لختِ جگر کی شادی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کر دی۔
چند دن وہاں گزارنے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مِصر جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ حضرت سارہ رضی اللّٰہ عنہا نے اصرار کیا کہ وہ بھی ساتھ جائیں گی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پہلے تو اُنہیں بہت روکا لیکن آخر ان کے اصرار سے مجبور ہو کر انہیں بھی ہمراہ لیا اور مصر کی طرف چل پڑے۔
جب مصر کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہاں کا بادشاہ نہایت ظالم اور بدکار ہے اور اس نے حکم دے رکھا ہے کہ کوئی عورت جب تک بادشاہ کے ملاحظہ سے نہ گزرے، نہ تو مصر کی حُدود سے گزر سکتی ہے اور نہ ہی وہاں قیام کر سکتی ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ رضی اللّٰہ عنہا کو ایک صندوق میں بند کر کے حدودِ مصر سے گزارنا چاہا تا کہ بادشاہ کے ضرر سے محفوظ رہیں۔ لیکن پہرے داروں نے صندوق کھول لیا اور حضرت سارہ رضی اللّٰہُ عنہا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ، دونوں کو بادشاہ کے سامنے پیش کر دیا۔
بادشاہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا یہ عورت کہاں لیے پھرتے ہو؟
حضرت ابراہیم نے جواب دیا میں ایک مسافر ہوں اور یہ عورت میری ایک قریبی رشتہ دار ہے۔ ہمارا شام جانے کا قصد ہے۔
بادشاہ نے کہا۔ تم دونوں کو ابھی چند روز یہاں ٹھہرنا ہو گا۔
یہ کہہ کر اس نے اپنے ملازموں کو ان کی رہائش کا بندوبست کرنے کا حکم دیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مجبوراً وہاں قیام کرنا پڑا۔
بادشاہ کی نیّت حضرت سارہ رضی اللّٰہُ عنہا کے متعلق صاف نا تھی۔
ایک دن وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عدم موجودگی میں بری نیت سے حضرت سارہ رضی اللّٰہُ عنہا کے پاس آیا۔ حضرت سارہ رضی اللّٰہُ عنہا نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی کہ
اے مولائے کریم! مجھے اس کے شر سے بچا۔
اللّٰہ تعالیٰ نے بادشاہ کو مفلوج اور بعض روایتوں کے مطابق اندھا کر دیا۔ اب وہ نہایت عاجزی سے گِڑگِڑایا۔ کہ
اے نیک خاتون! میری خطا معاف کر اور خدا سے دعا کر کہ مجھے اپنی اصلی حالت میں لوٹا دے۔
حضرت سارہ رضی اللّٰہُ عنہا نے کہا۔
میرا شوہر خدا کا محبوب پیغمبر ہے۔ تو اس سے معافی مانگ۔
بادشاہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے عفوِ تقصیر چاہی۔
انہوں نے معاف کیا اور اس کے حق میں دعا مانگی۔ بادشاہ اپنی اصلی حالت پر لوٹ آیا اور اپنی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں ایک نیک سیرت عورت پیش کی جن کا نام حضرت ہاجرہ سلامُ اللّٰہ علیھا تھا۔ آپ علیہ السلام نے ان سے نکاح کر لیا اور پھر حضرت سارہ اور حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہما، دونوں کے ہمراہ شام کی طرف روانہ ہوئے۔
مختلف مقامات پر قیام کرتے ہوئے کنعان پہنچے۔ وہاں حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے۔ حضرت سارہ رضی اللّٰہُ عنہا کے بطن سے کوئی اولاد نہ تھی۔ وہ کچھ افسردہ سی ہو گئیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بارگاہِ الٰہی سے حکم ہوا کہ وہ حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہُ عنہا اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کو کسی دوسرے مقام پر چھوڑ آئیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام انہیں اس مقام پر چھوڑ آئے جہاں آج کل کعبة اللّٰہ ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کیے کہ وہاں آبادی ہو گئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت سارہ رضی اللّٰہُ عنہا کے ہمراہ وہاں ہی تشریف لے آئے۔
مدت گزر گئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بوڑھے ہو گئے اور حضرت سارہ رضی اللّٰہُ عنہا بھی بہت ضعیف العمر ہو گئیں۔ ان کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی تو اس خیال سے بہت مغموم رہتیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عادتِ مبارکہ تھی کہ تنہا نہ کھاتے تھے۔ کسی نہ کسی مہمان کو ضرور شریکِ طعام فرما لیتے۔ ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ سات روز تک کوئی مہمان نہ آیا۔ خلیل اللّٰہ بہت متفکّر تھے۔ ساتویں دن دو نوجوان مسافرانہ حیثیت سے آئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بے حد مسرت ہوئی۔ فوراً ایک بچھڑا ذبح کیا اور اس کا گوشت بھون کر مہمانوں کے سامنے رکھا۔ لیکن مہمانوں نے کھانے کو ہاتھ تک نہ لگایا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام دل میں ڈرے کہ شاید مہمان ناراض ہیں۔ ان دونوں نے ہنس کر کہا
اے خلیل اللّٰہ! ہم فرشتے ہیں اور لوط کی قوم کو سزا دینے پر مقرر ہوئے ہیں۔ ہم تمہیں ایک بیٹے ( اسحق ) کی پیدائش کی خوشخبری دیتے ہیں۔
حضرت سارہ رضی اللّٰہُ عنہا یہ سن کر ہنس پڑیں اور فرمایا کہ
یہ کیسے ہو سکتا ہے میں تو بڑھیا (بانجھ ) ہو چکی ہوں اور میرا شوہر بھی بوڑھا ہے۔
فرشتوں نے کہا کہ
اللّٰہ کے حکم سے سب کچھ ہو سکتا ہے۔
یہ کہہ کر چلے گئے۔ کچھ عرصہ بعد حضرت سارہ رضی اللّٰہُ عنہا کے ہاں حضرت اسحٰق علیہ السلام,بڑے جلیل القدر پیغمبر پیدا ہوئے اور اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی افسردگی اور حیرت کو مسرت میں تبدیل کر دیا۔
ابن الاشرف 💓