اِیسٹ اِنڈیا کمپنی

(30 دسمبر 1906ء)

اِیسٹ اِنڈیا کمپنی کے ماتحت بنگال ایک بہت بڑا صوبہ تھا۔ بہار، اڑیسہ، آسام اور بنگال پر مشتمل تھا۔

1853ء میں اِنتظامی اُمُور کی انجام دہی کے پیشِ نظر فورٹ ولیم پریذیڈنسی کا رقبہ تقسیم کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔
1874ء میں آسام اور اس کے ساتھ تین اضلاع (سلہٹ ، کچھار اور گولپاڑہ) کو جِن کی زبان بنگلہ تھی، الگ کر کے چیف کمشنری بنا دیا گیا۔

بنگال پھر بھی بہت بڑا تھا۔ اس کا رقبہ ایک لاکھ نواسی ہزار مربع میل تھا اور آبادی سات کروڑ اسّی لاکھ کی تھی۔
اِس عظیم وُسعت کی وجہ سے صوبے کی اِنتظامی حالت نہایت خراب تھی۔ چُنانچہ لیفٹیننٹ گورنر اپنی پانچ سالہ معیاد عہدہ کے دوران ڈھاکہ اور چانگام جیسے اہم مقامات کا دورہ ایک دفعہ سے زیادہ نہیں کر سکتا تھا۔ جِس کے نتیجے میں مشرقی بنگال جہاں کے مسلمانوں کی اکثریت تھی، کے کِسانوں کی حالت بڑی تباہ ہو رہی تھی۔
اِن ہندو زمینداروں کے کارِندے جو مُستقِل طور پر مغربی بنگال میں سکُونت پذیر تھے۔ اُن کو بُری طرح لُوٹ رہے تھے۔ سرکاری نظام نہایت کمزور تھا۔ جرائم کا اِرتکاب وسیع پیمانے پر ہورہا تھا اور مشرقی بنگال کے باشندوں کی تعلیم کی طرف کوئی توجہ نہ تھی۔ آمدورفت کے لئے راستے اور وسائل محدود تھے۔ مشرقی بنگال کے شعبہ رفاہِ عامہ کی مد کا تمام بجٹ کلکتہ اور مغربی بنگال کے دوسرے علاقوں پر خرچ ہو رہا تھا۔
سب سے زیادہ پریشانی اڑیسہ کے لوگوں کو تھی کیونکہ اڑیسہ بنگال، آسام اور متوسط ممالک میں تقسیم تھا۔ تینوں صوبوں کو بھی زبان کے معاملے میں دِقّتوں کا سامنا تھا۔ چُنانچہ اڑیسہ کے لوگوں کی درخواستوں اور عرضداشتوں کے نتیجے میں بنگال کی تقسیم کا مسئلہ لارڈ کرزن کے سامنے آیا۔ تقسیم کے کئی منصوبے تھے۔ کافی غور و خوض کے بعد اُنہوں نے ایک سکِیم منظور کی۔ جِس کی رُو سے بنگال، مغربی اور مشرقی بنگال میں تقسیم ہو گیا۔

مغربی بنگال میں ہندوؤں کی اکثریت تھی اور مشرقی بنگال میں مسلمانوں کی۔ ڈھاکہ کومشرقی بنگال کا دارالحکومت قرار دیا گیا۔ اِس تقسیم سے مسلمانوں کی فلاح اور ترقی کے راستے کُھل گئے۔
جَب تقسیم کی قطعی اسکیم شائع ہوئی تو مسلمانوں نے بڑے جوش وخروش سے اِس کا خیر مٙقدٙم کیا۔کلکتہ کے ہندوؤں نے اِس پر سخت واویلا کیا۔ کانگریس نے اپنے طریقے سے ہندوستان بھر میں ایجی ٹیشن شروع کر دیا۔ کیونکہ اِس سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچ رہا تھا اور ہندوؤں سے وہ کچھ چھینا جا رہا تھا جو بٙر بنائے نا انصافی اُنہیں حاصل ہو گیا تھا۔
اِس تحریک کے پَسِ منظر میں مذہبی جنون زیادہ کارفرما تھا کیونکہ اُس زمانے میں دٙھریت یا عیسائی مشینری سے بچاؤ کے لئے ہندوؤں کی جتنی تحریکیں تھی۔ مثلاً “برہمو سماج ” “آریہ سماج” “تھیوسوفیکل سوسائٹی” “شدھی” اور “ہندوسنگھٹن” کی تحریکیں، ہندو لیڈروں نے اِن سب کا رُخ مُسلمانوں کی طرف پھیر دیا اور وہ تمام تنسیخِ تقسیمِ بنگال کی کوششوں میں مصروف ہو گئیں۔
اگرچہ تشدّد پسند بنگالیوں نے کالی کی پوجا کر کے انگریزوں کو قتل کیا لیکن اس تحریک کا اصل ہدف مسلمان تھا۔ اگرچہ بڑے عزم اور ارادے کے ساتھ ذی وقار اور معتبر انگریزوں نے اعلانات کئے کہ بنگال کی تقسیم ایک قطعی فیصلہ ہے، منسوخ نہیں ہو سکتا مگر ہندوؤں کی طرف سے اِس مُخالفت میں کوئی کمی نہ آئی۔ اِس کے مقابلے میں مسلمانوں کے پاس کوئی سیاسی جماعت نہ تھی۔ جو کانگریس کی اِس مخالفت کا جواب دیتی۔
اِس ہنگامہ پرور فِضا میں مسلمانوں کی نہایت کمزوری کے ساتھ انفرادی آوازیں اٹھتی تھیں لیکن ہندوؤں کے اجتماعی شور و شغب میں گم ہو جاتی تھیں۔ لِبرل پارٹی برسرِاقتدار آئی۔ سرکیمپل بیر نرمین اِس میں وزیر اعظم تھے اور مسٹر مورلے وزیرِ ہِند۔ اِس وزارت نے 1905ء میں اعلان کیا کہ حکومتِ برطانیہ ہندوستان میں نئی اصلاحات نافذ کرنے کی ضرورت پر غور کر رہی ہے۔
تقسیمِ بنگال کے خلاف کانگریس کا انجیٹیشن اور حکومتِ برطانیہ کا یہ اعلان دیکھ کر محسنُ الملک نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کے حقوق و مفادات کی حِفاظت کا انتظام کیا جانا چاہیے۔
رُفقاء کے مشورے سے نواب محسن الملک نے طے کیا کہ مسلمانانِ ہند کے نُمائندوں کا ایک وفد وائسرائے کے پاس جائے۔ چُنانچہ 16 ,15 ستمبر 1906ء کو لکھنؤ میں مسلمان نمائندوں کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔ جِس میں وفد کے متعلق تمام اُمور کا فیصلہ ہوا اور مُتّفِقَّہ طور پر ایڈریس کا مضمون منظور ہوا۔ ہزہائی نیس آغا خان کی سرکردگی میں یکم اکتوبر 1906ء کو یہ وفد شِملہ میں لارڈ منٹو سے ملا۔ جو اُس وقت ہندوستان میں وائسرائے تھا۔ ہزہائی نیس آغا خان نے وہ ایڈریس پڑھا جِسے نواب عمادالملک نے لِکھا۔ جِس میں مسلمانوں کی شکایتوں، دُشواریوں اور حق تلفیوں کا ذکر کرنے کے بعد چند مطالبات بھی پیش کئے گئے۔
وائسرائے سے ملاقات کے بعد 30 دسمبر 1906 ء کو ڈھاکہ میں نواب وقارُالملک کی صدارت میں مسلمان لیڈروں کا ایک سیاسی جلسہ ہوا۔ جِس میں نواب سلیم اللّٰہ خان رئیسِ ڈھاکہ نے ایک ریزولیوشن پیش کیا جس کی تائید حکیم اجمل خان، مولانا محمد علی اور مولانا ظفر علی خان نے کی۔ ریزولیوشن میں کہا گیا کہ

“یہ جلسہ جو ہندوستان کے مختلف حِصّوں کے اُن نمائندوں پر مشتمل ہے۔ جو ڈھاکہ میں مجتمع ہوئے ہیں، یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ایک سیاسی انجُمن قائم کی جائے جِس کا نام آل انڈیا مسلِم لیگ ہو۔”

مسلم لیگ کی تاسیس کا خیال خود مُسلمانوں کو پیدا ہوا اور انہوں نے ہی اِسے قائم کیا۔ اِس کی منظوری کے لئے نہ کوئی انگلستان گیا نہ کِسی سے اِس کی تائید وحمایت کے لئے درخواست کی گئی۔
مُسلم لیگ کا پہلا دستور مولانا محمد علی نے لکھا۔ اِس طرح مسلم لیگ قائم ہوئی اور اس کا پہلا باقاعدہ اجلاس 29, 30 دسمبر 1907ء کو کراچی میں ہوا۔

(اِبنُ الاٙشرٙف 💓)

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *