روس جاپان جنگ

روس جاپان جنگ

کوریا میں جاپانی مداخلت کو روکنے کے لئے رٙشیا نے جنگی جہازوں کو روانہ کر دیا۔ پورٹ آرتھر کے مقام پر جاپانی بحری بیڑے کا رُوسی بحری بیڑے سے تصادم ہو گیا۔
پہلے مرحلے میں دو رُوسی جنگی جہاز اور ایک کروزر جاپانی تارپیڈو سے بُری طرح تباہ ہو گئے۔ اِس طرح بندرگاہ کے داخلی راستے پر رُوس کی پیش قدمی بری طرح متاثر ہوئی۔ اِسی طرح چموٹی پوکی بندرگاہ پر دو جنگی جہازوں کو گھیرے میں لے کر ناکارہ بنادیا گیا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ کوریا اور منچوریا میں روس کے فوجی عزائم پر ایک کاری ضرب لگائی تھی۔
دو ماہ کی جنگ کے دوران مشرق بعید میں رُوس کی بحری طاقت تقریباً ختم ہو چکی تھی۔ مارچ کے آغاز کے دنوں میں جاپانیوں نے ولاڈی واسٹک پر بمباری کر کے روس کے جہازوں کو اُن کی بنیادی بندرگاہوں سے کاٹ دیا اور مارچ کے آخر تک ایڈمرل ٹوگو نے رُوس کے سات جہاز ڈبو دیئے اور پورٹ آرتھر پر اپنا محاصرہ مضبوط کر لیا۔ رُوس کی فوجی پوزیشن بہت خراب ہو گئی۔ اس اَبتَر صورتحال میں رُوس کو ایک مزید سانحہ سے دو چار ہونا پڑا۔ پورٹ آرتھر کے قریب رُوسی جنگی جہاز پتر و پاولوسکو ایک بارودی سرنگ سے ٹکرا کر ڈوب گیا۔ اِس جہاز میں بحری کمانڈر انچیف ایڈمرل حاکروف سمیت چھ سو افراد ڈوب گئے۔
اگرچہ رُوس اور جاپان کی طرف سے مخالِف فریق کو بھاری نقصان پہنچانے کے دعوے کئے جارہے تھے لیکن حقیقت یہ تھی کہ اِس جنگ میں دونوں فریقٙین کا بھاری نقصان ہو رہا تھا۔ البتہ رُوس کے پاس ایک ہی گرم بندرگاہ تھی جو سارا سال کھلی رہتی تھی۔ اس کا جاپان نے محاصرہ کر لیا۔ جِس کے بعد رُوس کی کمر ٹوٹ گئی۔ جاپانیوں نے تمام قلعوں پر قبضہ کر لیا۔ شُمال مشرق میں واقع ٹرانس سائبیرین ریلوے لائن 250 میل دور تھی۔ ریلوے کو حقیقتاً جامد کر دیا گیا تھا۔
تین بحری جنگی جہاز بندرگاہ میں ڈوب رہے تھے۔ جِنہیں ساحلی علاقے سے نشانہ بنایا گیا تھا۔

شہر میں موجود رُوسی فوجوں کے حوصلے پست ہو رہے تھے۔ جاپانیوں کی حِکمتِ عملی چکرا دینے والی تھی کہ رُوسی آفیسر بے بس نظر آنے لگے۔ آخِرکار 2 جنوری 1905ء کو پورٹ آرتھر پر جاپان کے تقریباً چھ ماہ کے زبردست محاصرے کے بعد جنرل انوتلی استوسل بالآخر ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گیا اور ساڑھے چار بجے دوپہر ٹوکیو میں ہتھیار پھینکنے کا اقرار نامہ بھیجا۔
جاپان کے شہنشاہ نے روسی حکومت کو یقین دلایا کہ ہتھیار ڈالنے والے تمام فوجی دَستوں کے ساتھ اچھا انسانی برتاؤ کیا جائے گا۔ جاپانی روایت کے مطابق جنرل استوسل کو سزائے موت دی جائے گی اگر زار روس اس کی رہائی کی درخواست نہیں کرتا۔

جاپان میں اس فتح کو بڑی شان و شوکت سے منایا گیا۔ لیکن دوسری طرف رُوس میں عوام کو اِس شِکَست کے بارے میں لاعِلم رکھا گیا تھا۔ اِس شِکَست کے بعد منچوریا میں بھی روس کا کنٹرول کمزور پڑ گیا اور روسی جنرل کرویاتکن اور جنوبی منچوریا کے علاقے کو چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔ اِس جنگ میں رُوس کی دو لاکھ فوج ہلاک ہوئی۔ شِکَست خوردہ فوج میدان میں گیارہ توپیں چھوڑ آئی۔

رُوس کے اندر بھی رُوسیوں کے دلوں میں زار روس کے لئے نفرت کے جذبات جڑ پکڑ چکے تھے اور بُحران شدت اختیار کرتا جا رہا تھا۔ عوام سرکاری اہلکاروں اور جاگیرداروں پر حملے کر رہے تھے۔ سوسیخا کے محاذ پر رُوس کی آخری امید ایڈمرل روجستدنسکی کا بحری بیڑہ بھی جاپانیوں کے ہاتھوں تباہ ہوگیا۔ جاپانیوں نے 12 جنگی جہاز ڈبونے کا دعویٰ کیا اور اپنے صرف دو جہازوں کی تباہی کا اعتراف کیا۔ رُوسی بحری بیڑہ جسے بحیرہ بالٹک میں تیار کیا گیا تھا۔ آدھی دُنیا کا سفر طے کرنے کے بعد میدانِ جنگ میں پہنچا تھا۔ جاپان کے ایڈمرل ٹوگو نے دُھند کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رُوسی بیڑے پر اچانک تارپیڈو سے حملہ کر دیا۔ اس حملے سے رُوس کی بحری قوت کی کمر ٹوٹ گئی اور عملی طور پر مشرق بعید میں رُوس کی بحری قوت ختم ہو کر رہ گئی۔ اس کے چند دِن بعد روس کے جنرل لیایونو نے جزیرہ سخالین پر بھی ہتھیار ڈال دیئے۔ 1875ء میں رُوس نے اِس جزِیرے کو اپنی مُملِکَت میں شامل کر لِیا تھا۔ مارچ میں مکدن شہر کا ہاتھ سے چلے جانا اور مئی میں سوشیما میں رُوسی فوج کی شکست ایسے واقعات تھے جن سے رُوسی عوام میں بے چینی اور غم وغصہ پھیل گیا۔ جاپان پُرامید تھا کہ ایسے غیر یقینی حالات میں رُوس ضرور مذاکرات کا راستہ اختیار کرے گا۔ آخرکار 5 ستمبر 1905ء کو رُوس اور جاپان کے بادشاہوں نے معاہدہ پورٹ سمائتھ پر دستخط کئے۔ جس کے بعد کوریا اور مانچوریا کی جنگ باقاعدہ طور پر ختم ہو گئی۔
معاہدے کی شِقوں سے یہ بات واضِح تھی کہ جاپان نے جنگ کے تمام مقاصد حاصل کر لیے تھے۔ جِس میں مانچوریا سے رُوسیوں کا اخراج بھی شامل تھا۔ اِس معاہدے کے تحت رُوس نے کوریا میں جاپان کے سیاسی، فوجی اور معاشی مفادات کو تسلیم کر لیا اور رُوس نے اس بات کی ضمانت دی کہ وہ کوریا میں جاپان کے معاملات میں مُداخلت نہیں کرے گا۔ رُوس اور جاپان کی فوج مانچوریا سے نکل جائے گی لیکن پورٹ آرتھر میں رُوسی حقوق جاپان کو منتقل ہو گئے اور رُوس نے جنوبی سخالین کا علاقہ بھی جاپان کے حوالے کر دیا۔

(اِبنُ الاٙشرٙف💓)

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *