خلیفۂ دوم ، امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ
حضرت عمرو بن میمون رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں :
جب حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کو خنجر مارا گیا تو فرمایا:
اے ابن عباس! دیکھو مجھے کس نے قتل کیا ہے؟
تو وہ کچھ دیر کیلئے دوڑ کے گئے اور واپس آئے اور عرض کیا:
مغیرہ بن شعبہ کے غلام نے۔
تو فرمایا کہ
محنت کش نے؟
عرض کیا :
جی ہاں !
فرمایا:
اس کو خدا مارے, میں نے تو اس کو نیکی کا حکم دیا تھا۔ تمام تعریفیں ہیں اس اللّٰہ کے لئے, جس نے میری موت اس آدمی کے ہاتھ سے نہ ہونے دی جو اسلام کا دعویٰ کرتا ہے۔
پھر کچھ لوگ آپ رضی اللّٰہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے۔ ان میں ایک جوان بھی تھا جس کی چادر زمین کو مس کر رہی تھی۔ فرمایا :
اے بھتیجے ! اپنا کپڑا اوپر کر لو یہ تمہارے کپڑے کی عمر کو بڑھائے گا اور تمہارے رب کے تقویٰ کے لائق ہے۔
پھر اپنے بیٹے سے فرمایا : اے عبداللّٰہ ! ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا کے پاس جاؤ اور عرض کرو : عمر آپ کو سلام عرض کرتا ہے۔ امیر المومنین مت کہنا کیونکہ آج میں مومنوں کا امیر نہیں رہا اور پوچھو کہ عمر آپ سے اجازت چاہتا ہے کہ اس کو اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن کیا جائے۔
چنانچہ وہ چلے گئے اور پھر واپس آئے اور بتایا کہ انہوں نے اجازت دے دی ہے۔ تو فرمایا:
الحمدللّٰہ میرے نزدیک اس سے اہم کوئی چیز نہیں تھی۔ جب میری روح قبض ہو جائے تو مجھے اٹھا کر لے جانا اور کہنا کہ عمر اجازت مانگتا ہے اگر (ام المومنین ) میرے لئے اجازت دے دیں تو مجھے (ان کے حجرہ میں ) داخل کر دینا اور اگر مجھے واپس لوٹا دیں تو مجھے مسلمانوں کے قبرستان کی طرف لےجانا۔ (۴)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں : جس بیماری میں حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ فوت ہوئے۔ اس وقت ان کا سر مبارک میری گود میں تھا,مجھے فرمایا:
میرا رخسار زمین پر رکھ دو۔
میں نے عرض کیا, آپ کو کوئی فرق نہیں پڑنا، چاہے وہ میری گود میں رہے یا زمین پر۔ فرمایا :
تیری ماں مر جائے اس کو رکھ دے، تو میں نے رکھ دیا۔
پھر فرمایا:
میرے لئے ہلاکت ہے میری ماں کیلئے ہلاکت، اگر میرے پروردگار نے مجھے پر رحم نہ کیا تو (۵)
جب حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کو خنجر مارا گیا تو حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ ان کے پاس گئے اور فرمایا:
*اے امیر المومنین! آپ اس وقت ایمان لائے جب لوگوں نے کفر کیا۔ آپ نے اس وقت رسول اللّٰہ ﷺ کے ساتھ مل کر جہاد کیا جبکہ لوگوں نے آپ کو زچ کیا تھا۔ آپ کو شہید کر کے قتل کیا گیا جبکہ آپ کی ذات کے بارے میں دو آدمیوں کو بھی کوئی اختلاف نہیں تھا اور رسول خدا ﷺ اس حالت میں فوت ہوئے کہ وہ آپ سے راضی تھے تو آپ نے فرمایا:
وہ شخص دھو کہ میں ہے جس کو تو دھو کہ میں رکھے ۔ خدا کی قسم! اگر میری ملکیت میں وہ سرمایہ ہو جس پر سورج طلوع ہوتا اور غروب ہوتا ہے تو میں موت کے جھانکنے کی ہولناکی کے بدلہ میں اس کو فدیہ میں دیدوں ۔ (۶)
حضرت عبد اللّٰہ بن زبیر رضی اللّٰہ عنہما فرماتے ہیں :
جب سے مجھے عقل ملی اتناغم نہیں ہوا جتنا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ پر خنجر زنی کی رات میں ہوا تھا۔
فرمایا: کہ انہوں نے ظہر ,عصر, مغرب اور عشاء ہمارے ساتھ پڑھی کہ لوگ بھی خوش تھے اور ان کا حال بھی اچھا تھا۔ جب صبح کی نماز کا وقت ہوا تو ہمیں ایسے شخص نے نماز پڑھائی جس کی تعبیر کی آواز کو ہم نہیں پہچانتے تھے۔
یہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف تھے ۔ جب ہم نے سلام پھیرا تو کہا گیا کہ امیر المومنین عمر رضی اللّٰہ عنہ کو خنجر مار دیا گیا ہے تو لوگ اس حال میں نماز سے فارغ ہوئے کہ حضرت عمرؓ اپنے خون میں لت پت تھے اور فجر کی نماز نہ پڑھ سکے۔ ان سے عرض کیا گیا: اے امیر المومنین!
نماز پڑھ لیں۔ نماز پڑھ لیں ۔ فرمایا :
نماز تو اللّٰہ کی طرف سے فرض ہے جو شخص نماز کو ضائع کرتا ہے اسلام میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔
پھر جلدی سے اٹھنے لگے تو ان کے گھاؤ سے خون پھوٹنے لگا تو فرمایا:
میری پگڑی لاؤ اور اس کے ساتھ اس زخم کو باندھ دو۔
پھر آپ نے نماز پڑھی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: اے لوگو! تمہاری موجودگی میں یہ کچھ ہو گیا تو ان سے حضرت علی بن ابی طالب کرم اللّٰہ وجہہ نے فرمایا:
نہیں خدا کی قسم! ہمیں معلوم نہیں ۔ اللّٰہ کی مخلوق میں سے کون سرکش تھا۔ ہماری جانیں تو آپ پر نچھاور ہیں اور ہمارے خون آپ کے خون کے بدلہ میں بہائے جاسکتے ہیں۔
پھر وہ حضرت عبد اللّٰہ بن عباس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
چلے جاؤ۔ لوگوں کا حال پوچھو اور پھر آکر مجھے سچی بات بتاؤ
تو وہ نکل کھڑے ہوئے پھر واپس آئے تو فرمایا :
اے امیر المومنین! آپ کو جنت کی خوشخبری ہو۔ خدا کی قسم! اللّٰہ کی مخلوق میں سے مرد ہو یا عورت میں نے ہر آنکھ کو جو جھپکتی ہے, آپ کے غم میں روتے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ اپنی ماؤں اور باپوں کو آپ پر قربان کر رہے ہیں۔ (۷)
حضرت مجاہد (تابعی) فرماتے ہیں :
ہم کہا کرتے تھے کہ شیاطین حضرت عمرؓ کے زمانہ میں باندھ دیئے گئے تھے۔ جب ان کو شہید کر دیا گیا تو یہ زمین میں نمودار ہو گئے ۔ (۸)
حضرت عمرؓ نے خدا کے دشمن ابولؤلؤ کے بارے میں فرمایا :
کہ مجھے ابولؤلؤ نے خنجر مارا ہے میں تو اس کو کتا ہی سمجھتا ہوں۔(۹)