( جارج برنارڈشا )”George Bernard Sahw”

(1856_1950).

(وہ اِس قدر شرمیلا تھا کہ اپنے دوستوں کو ملنے سے گھبراتا تھا۔ اِس کے باوجود اپنے دٙور کا بہترین مقرر بن گیا۔)

“قِسط : ١”

“””” دنیا میں ایسے بہت کم لوگ ہیں جو اِس قدر مشہور ہوں کہ اُن کے نام کی جگہ اکثر اُن کے نام کے ابتدائی حُروف استعمال کیے جائیں۔ اُن میں آئرلینڈ کا ایک باشندہ تھا اُس کے نام کے ابتدائی حروف “جی۔بی۔ایس” ہیں۔

میرے خیال میں وہ اپنے وقت کا سب سے ناموٙر ادیب تھا۔ اُس کی ناقابلِ اعتبار زندگی کی کہانی پر ایک ایسی کتاب لکھی گئی ہے جس کا عنوان بھی اُس کا نام نہیں۔ فقط سرِ ورق پر تین حروف درج ہیں “جی۔ بی۔ ایس” (جارج برنارڈ شا)۔

جارج برنارڈ شا کی زندگی عجیب تضادات سے بھری ہوئی تھی۔ مثلاً اُس نے فقط پانچ برس سکول میں تعلیم پائی لیکن رسمی تعلیم کی کمی کے باوجود اُسے اپنے دٙور کا عظیم ترین ادیب تسلیم کیا گیا اور اُسے زندگی میں وہ اعزاز حاصل ہوئے جو ایک ادیب کے لیے زندگی کا سب سے بڑا اعزاز ہوتا ہے، یعنی اُس نے ادبی دنیا میں نوبل پرائز حاصل کیا۔ یہ انعام سات ہزار پانڈ پر مشتمل ہوتا ہے۔

جارج برنارڈ شا نے محسوس کیا کہ اُسے اعزاز اور نہ ہی کسی روپے پیسوں کی ضرورت ہے۔ لہذا اس نے رقم قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ آخر اُسے اِس بات پر رضامند کیا گیا کہ وہ فقط ایک سیکنڈ کے لیے یہ رقم قبول کر لے اور ایک ہاتھ سے لے کر دوسرے ہاتھ سے “اینگلو سویڈش ادبی اتحاد” نامی جماعت کے لیے وقف کر دے۔

برنارڈ شا کا والد ایک اچھے آئرش گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کی والدہ نے اپنی ایک امیر چچی کی مرضی کے خلاف برنارڈ شا کے والد سے شادی کی تھی اور اِس جُرم کی پاداش میں اُس کی چچی نے اُسے جائیداد سے محروم کر دیا تھا۔

کُنبے کی مالی حالت اِس قدر نازک ہو گئی تھی کہ برنارڈ شا کو 15 برس کی عمر میں پیٹ پالنے کے لیے مجبوراً کام کرنا پڑا۔ ملازمت کے پہلے برس وہ ایک پونڈ ماہوٙار سے بھی کم تنخواہ پر کام کرتا رہا۔
پھر 16 برس سے 20 برس کی عمر تک وہ ایک ذمہ دار خزانچی کی حیثیت سے فرائضِ منصبی ادا کرتا رہا۔ اُس کی ہفتہ وار تنخواہ 35 شلنگ تھی لیکن اُسے دفتری کام سے نفرت تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی تربیت ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جہاں علم و فن اور ادب و موسیقی کی شمعیں روشن تھیں۔

سات برس کی عمر میں برنارڈ شا نے “شیکسپیئر، بِن یان، الف لیلہ اور بائبل” کا مکمل مطالعہ کر لیا تھا۔ جب وہ 12 برس کا تھا تو “بائرن، چارلس، ڈکنز، ڈوما اور شیلے” اُس کی نظر سے گزر چکے تھے۔ اٹھارویں برس میں قدم رکھنے سے پہلے وہ “ٹائم وال، سٹورٹ مل اور ہربرٹ سپنسر کی نگارشات سے واقف ہو چکا تھا۔

عظیم ادیبوں نے اس کے تصور کو تیز تر کر کے اس کا ذہن عجیب خوابوں کی آماجگاہ بنا دیا تھا اور وہ اِسی سبب اپنے دفتری اُمُور میں بالکل دلچسپی نہ لیتا تھا۔ اس کا تصور تو “فنِ ادب، سائنس اور مذہب” کے حُسن زاروں کو اپنا مٙسکٙن بنائے ہوئے تھا۔

اپنی بیسویں سالگرہ سے تھوڑا عرصہ پہلے برنارڈ شا نے خود سے کہا ؛

“زندگی فقط ایک دفعہ حاصل ہوتی ہے۔ میں اِسے دفتری اُلجھنوں کا ہرگز شکار نہ ہونے دوں گا”

1876ء میں وہ ملازمت ترک کر کے لندن چلا آیا جہاں اس کی والدہ موسیقی کی کلاسز دے کر گزر اوقات کر رہی تھی۔ وہاں برنارڈ شا نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا جس سے اُسے بے پناہ دولت و شہرت ملی۔

لیکن ادب کے ذریعے روزی کمانے سے پیشتر وہ متواتر نو برس تک لکھتا رہا۔ اس نے اپنا سارا وقت لکھنے کے لیے وقف کر دیا۔ وہ روزانہ خود کو پانچ صفحات لکھنے پر مجبور کرتا۔

اپنے متعلق جارج برنارڈ شا لکھتا ہے؛

“میرے اندر طالب علم اور کلرک ابھی تک چُھپا بیٹھا تھا۔ اگر پانچواں صفحہ کسی جملے کے درمیان ختم ہو جاتا تو میں وہ جملہ ادھورا ہی رہنے دیتا اور اُسے اگلے دن مکمل کرتا”۔

نو سال کے عرصہ میں اُس نے پانچ طویل ناول لکھے۔ اُن میں سے ایک کا نام “فنکاروں کے درمیان محبت” تھا۔ اس نے اپنے ہر ناول کا مُسٙوّٙدٙہ انگلینڈ اور امریکہ کے پبلشرز کے پاس بھیجا لیکن ہر ایک نے اُنہیں واپس بھیج دیا۔ بعض پبلشرز نے اتنا ضرور لکھا کہ وہ اُس کی اگلی کوشش کو دیکھنا پسند کریں گے۔
لیکن اتنا ضرور ہے کہ کسی نے اُس کی ادبی صلاحیتوں پر نقطہ چینی نہ کی اور اُسے یہ نہ کہا کہ وہ کوئی دوسرا کام کرے تو بہتر ہوگا۔ بات یہ تھی کہ اُس کے خیالات اُن کی سمجھ میں نہ آتے تھے۔

اُن دنوں برنارڈ شا کی مالی حالت اِس قدر خراب تھی کہ اُس کے پاس اپنے مُسودے ارسال کرنے کے لیے ٹکٹ خریدنے کے لیے بھی پیسے نہ تھے۔ ادبی زندگی کے پہلے نو برس میں اُس کی آمدنی فقط چھ پونڈ تھی۔

اس کے بدن پر اکثر پھٹے پرانے کپڑے اور جوتوں میں لمبے لمبے سوراخ ہوتے لیکن وہ کبھی بھوکا نہ رہا۔ اس کی والدہ نان بائی اور پرچون فروش سے اُدھار لے کر اُسے بھوک کے چنگل سے بچاتی رہی۔

اپنی ادبی زندگی کے ابتدائی نو برس میں اُس نے ادب سے پہلے ایک نئی دوا کے متعلق ایک مضمون لکھ کر پانچ پونڈ کمائے۔ چھٹا پونڈ اُس نے ایک دفعہ الیکشن کے موقع پر ووٹوں کی گنتی کر کے کمایا۔

پھر جارج برنارڈ شا زندہ رہنے کے لیے پیسے کہاں سے لیتا تھا۔ اس نے بلا تکلف تسلیم کیا کہ اس کے کنبے کو اس کے سہارے کی اشد ضرورت تھی لیکن وہ کنبے کی مالی حالت بہتر بنانے کے لیے کچھ نہ کرتا تھا۔ اس کے برعکس وہ کنبے کا دست نگر تھا۔ جیسا کہ جارج برنارڈ شا نے خود کہا ہے؛

“میں نے معاش کے بکھیڑوں میں خود کو ڈالنے کی بجائے اپنی والدہ کو ڈال رکھا تھا “۔

آخر جارج برنارڈ شا فنونِ لطیفہ کے نٙقّٙاد کی حیثیت سے خود کفیل ہو گیا۔ اس کی پہلی ادبی اور مالی کامیابی اس کے ناولوں کی بجائے اس کے ڈرامے ثابت ہوئے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے ابتدائی ڈرامے ناکام بھی ہوئے۔

اس بات پر قطعاً یقین نہیں آتا کہ جارج برنارڈ شا جو ایک بہترین اور اعلی درجے کا مقرر تھا، بڑے سے بڑے مجمع کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا اور عائلی قوانین، جمہوری ہیرا پھیری، مذہبی اداروں اور انسانوں کی تقریباً تمام مُرٙوّٙجہ روایات پر کھلم کھلا کٙڑی تنقید کرتا تھا، وہ کبھی شرمیلے پن، اِنکساری اور احساسِ کمتری میں بری طرح مبتلا ہو جائے گا۔
مثلاً جوانی کے دنوں میں کبھی کبھی جارج برنارڈ شا اُن دوستوں کو ملنے کے لیے جاتا جو لندن میں دریائے ٹیمز کے کنارے رہتے تھے۔ ایسے موقعوں پر جارج برنارڈ شا کی کیا حالت ہوتی تھی اُس کا نقشہ اُس نے خود بیان کیا ہے ؛

“شرمیلے پن کی اذیت مجھے اس قدر تنگ کیا کرتی کہ میں بعض اوقات اپنے کسی دوست کے دروازے پر دستک دینے سے بھی ہچکچاتا اور کتنی کتنی دیر تذبذب کے عالٙم میں اُس کے مکان سے ذرا ہٹ کر اُدھر اُدھر گھومتا رہتا۔ پھر میں تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا اپنے گھر کی طرف چل پڑتا اور راستے میں خود سے کہتا کہ اگر واپس چلے آنا اتنا آسان ہے تو پھر خود کو اذیت میں مبتلا کرنے سے کیا فائدہ۔ بہت کم لوگ جوانی میں مجھ سے زیادہ بزدل یا دوسرے الفاظ میں شرمیلے ہوں گے”۔

اس کے باوجود برنارڈ شا معاشرے میں اپنے طرزِ سلوک کے متعلق اس قدر محتاط تھا کہ لندن کی ہر اچھی لائبریری میں اُسے آدابِ زندگی کے متعلق جو بھی کتاب نظر آئی اُس نے پڑھ ڈالی لیکن جس واحد کتاب سے اُس نے اِستفادہ کیا اُس کا نام ہے “اچھے معاشرے کا لب و لہجہ”۔

(بڑے آدمی سے ماخوذ۔ ۔۔۔)

جاری ہے۔ ۔۔۔۔

(اِبنُ الاٙشرٙف💓)

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *