ایسوپ
قدیم یونان کا سعدی۔ یونانی ادیب اور معروف قصہ گو ؛
پیدائش : 620 قبل مسیح۔
انتقال : 544 قبل مسیح۔
مشہور یونانی ادیب اور معروف قصہ گٙو ایسوپ (Aesop) کی حکایتیں اتنی مقبول ہوئیں کہ صدیوں تک مصر اور مشرق وسطٰی کے دوسرے ممالک میں زبانِ زد عام رہیں۔ “انگور کھٹے ہیں” کے خالق،،، اور اس عظیم حکایت گو کے ننھے منے ہدایت نامے دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوکر نصابوں کا حصہ بنے۔
ایسوپ کے صحیح حالات کا علم تو نہیں البتہ دنیا کے سب سے بڑے یونانی مورخ اور مضمون نگار “ہیروڈوٹس” نے اس کے متعلق اتنا لکھا ہے کہ وہ 620 قبل مسیح میں پیدا ہوا اور بچپن میں کسی کا غلام تھا۔
آزاد ہونے پر اس نے لیڈیا، مصر اور یونان کا سفر کیا۔ اور اسی سیاحت کے دوران میں اس نے دلچسپ اور سبق آموز کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس نے مصر کے اماسس(Amasis) کا عہدِ حکومت دیکھا تھا۔ وہ ایک تھریشیائی لیڈمین کا غلام تھا۔ اس کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ اس نے سولون یعنی 570 قبل مسیح کا عہد دیکھا تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ بہت زیادہ بدصورت تھا لیکن ذہین اور باصلاحیت انسان تھا۔
ایسوپ نے اپنی کہانیوں کے ذریعے اپنے آقا کو بہت متاثر کیا جس کے نتیجہ میں اسے آزادی مل گئی۔ غلامی سے نجات حاصل کرنے کے بعد وہ شہنشاہ کروٹسس کے دربار میں گیا اور اس کی ملازمت اختیار کر لی۔ شہنشاہ نے اسے اس کام پر مامور کیا کہ وہ ڈیلفی کے باشندوں میں تقسیم کرنے کے لئے ایک خاص رقم لے جائے۔ جب ایسوپ ڈیلفی پہنچا اور روپیہ تقسیم کرنے لگا تو اس دوران ایک تنازع کھڑا ہو گیا اور ڈیلفی کے مشتعل باشندوں نے ایسوپ کو ایک چٹان سے نیچے پھینک دیا جس کے نتیجہ میں یہ عظیم قصہ گو ہلاکت سے دوچار ہوا۔
یونان کا ادب ایسوپ کے شاہکاروں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اور یہ شاہکار وہ چھوٹی چھوٹی کہانیاں ہیں جن کے حوالہ سے ایسوپ دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔ آپ یہ جان کر شاید حیران ہوں گے کہ “انگور کھٹے ہیں” والی مشہور حکایت ایسوپ ہی سے منسوب ہے۔
یہ کہانیاں جانوروں، پرندوں اور درندوں سے متعلق ہیں۔ ان میں زیادہ تر حیوانی اور قدرے انسانی کردار کے اعمال و افعال کے ذریعے اخلاق آموزی کا کام لیا گیا ہے۔
سُقراط کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب وہ قید و بند کی زندگی گزار رہا تھا تو اس نے ایسوپ کی ان اخلاقی کہانیوں کو نظم کا جامہ پہنایا۔
ایسوپ سے منسوب یہ چھوٹی کہانیاں آج دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔ عالمی ادب میں اس انداز کی کہانیوں کو متعارف کروانے کا سہرا اگر یونان کے سر جاتا ہے تو اس کی وجہ بھی ایسوپ ہی ہے۔ ایسوپ کی دو سبق آموز کہانیاں ملاحظہ فرمائیں۔
1 : شیر کا حصہ :
ایک شیر ایک لومڑی ایک گیدڑ اور ایک بھیڑیے میں یہ معاہدہ ہوا کہ وہ شکار میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ جب وہ شکار کو نکلے تو انہوں نے ایک بارہ سنگھے کا تعاقب کیا اور جلد ہی اسے مار ڈالا۔ تب شیر نے حکم صادر فرمایا کہ شکار کو بانٹ دیا جائے۔ چاروں نے مل کر اس کی کھال اتاری اور اسے چار برابر ٹکڑوں میں تقسیم کردیا۔
پھر شیر سامنے آ کر کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ پہلا حصہ مجھ کو جاتا ہے کیوں کہ میں جانوروں کی دنیا کا بادشاہ ہوں۔ دوسرا حصہ بھی میرا ہے کہ میں منصف ہوں۔
تیسرا حصہ بھی میرا ہی ہے کہ میں نے شکار کے تعاقب میں زیادہ محنت کی۔ اور جہاں تک چوتھے حصے کا سوال ہے میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ کس میں ہمت ہے جو اس کا دعوٰی کرے۔
شیر کا فیصلہ سن کر بقیہ ساتھی کھسک گئے۔ تب لومڑی نے کہا آپ اپنی محنت کے ضرور حقدار ہیں۔ لیکن برباد چیزوں میں حصہ دار نہیں ہوں گے۔
2 : شیر کی کھال میں گدھا :
ایک گدھے کو کہیں سے شیر کی کھال مل گئی جسے شکاری نے سوکھنے کے لیے پھیلایا تھا۔ گدھے نے اسے پہن لیا اور اپنے گاؤں کی طرف جا کر جانوروں کو خوفزدہ کیا۔ چرواہے بھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ گدھا اپنے اس کارنامے پر بہت خوش اور اپنے مالک کے پاس پہنچا جو اسے ہمیشہ پیٹا کرتا تھا۔ اس کا مالک پہلے تو بہت ڈرا لیکن اس نے اس کے لمبے کان دیکھ کر گدھے کو پہچان لیا۔ اس کے بعد اس نے ایک ڈنڈا اٹھایا اور گدھے کی بری طرح پٹائی کی۔ پھر اس کی کھال اتار ڈالی۔
ایسوپ کی کہانیوں کے مجموعہ کا نام ‘
“Aesop’s pables”
ہے۔
۔۔۔۔ابن الاشرف۔۔۔۔