ب آ بھی جا کہ کئی دن سے بے قرار ہوں میں ؛
اب آ بھی جا کہ کئی دن سے بے قرار ہوں میں
اے جانِ جان تری فرقت میں اشکبار ہوں میں۔
یقیں نہ آئے تو اِک بار دیکھ لے آکر !
ترے بغیر پریشان و سوگوار ہوں میں۔
یہاں تک آ نہیں سکتا تو واں ہی بُلوا لے
خراب حال سہی پھر بھی تیرا یار میں۔
تجھے اگر مری پروا نہیں تو غم کیا ہے
مگر یہ بھول نہ جانا کہ جاں نثار ہوں میں۔
میں تجھ کو دل سے بھلا دوں یہ غیر ممکن ہے
ستم نصیب ہوں لیکن وفا شعار ہوں میں۔
تھا ایک دل وہ تجھے دے دیا مگر پھر بھی
نہ جانے کس طرح تری نظروں میں بے وقار ہوں میں۔
مِٹا نہ مجھ کو جہاں سے کہ اے بُتِ کم سِن
تری حسین جفاؤں کی یادگار ہوں میں۔
خزاں کی نذر ہوئی جس کی ہر کلی اعظم
اسی چمن کی خزاں سوختہ بہار ہوں میں۔
(اعظم چشتی علیہ الرحمة)
اِبنُ الاٙشرٙف