اسلکی مواصلات کی ایجاد

اسلکی مواصلات کی ایجاد

ساری دُنیا میں مواصلات کا ایک جال بِچھا ہوا ہے۔ کُرَّۂ اَرض کے کِسی ایک کونے پر ایک بٹن دبائیے یا کسی مائیکروفون کے سامنے کھڑے ہو کر بولیے تو آپ کی آواز دوسرے کونے تک بِلا روک ٹوک پہنچ جاتی ہے۔ دنیا کی طنابیں اس طرح کھینچ کر دور دراز مقامات کو ایک دوسرے سے قریب لانے کا سہراگلگلیمو مارکونی کے سر ہے۔

12 دسمبر 1901 ء کو مارکونی نے یہ دریافت کیا تھا کہ ایتھر میں بجلی کی لہریں دوڑائی جائیں تو دور دراز مقامات سے پیغام وصول ہو سکتے ہیں۔ لیکن اُسے اِتنی بات معلوم کرنے میں جو دِقّتیں پیش آتی تھیں اور جن ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اس کی داستان بھی طویل ہے۔

گزشتہ سے پیوستہ صدی کے آخر کا زمانہ تھا۔ سائنسدان یہ معلوم کر چکے تھے کہ ایتھر میں یہ خصوصیت موجود ہے کہ اگر بجلی کی لہریں دوڑائی جائیں تو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ سکتی ہیں۔ لیکن انہیں کبھی یہ گمان بھی نہیں گزرا تھا کہ یہی خصوصیت پیغام رسانی میں بھی کام آسکتی ہے۔
مارکونی اُن دِنوں اٹلی میں اپنے والدین کے پاس رہتا تھا۔ یہ 1895 ء کی بات ہے کہ اسے یہ معلوم ہوا کہ اگر ایئریل بلند کر دیا جائے تو زیادہ فاصلے سے پیغامات وصول ہو سکتے ہیں۔
اس دریافت کی بناء پر یہ ممکن ہوا کہ وائرلیس ٹیلی گراف میں ایتھر سے کام لیا جا سکے۔ دوسرے سال کے آغاز میں مارکونی اِنگلستان چلا گیا اور یہاں وائرلیس ٹیلی گراف کے نظام کو سپٹنٹ کرایا۔ اُس نے اِس مقصد کے لئے اِنگلستان کو اِس لئے منتخب کیا تھا کہ اُس زمانے میں برطانیہ میں دنیا کا سب سے بڑا بحری بیڑہ موجود تھا اور اُسے خیال تھا کہ وائرلیس ٹیلی گراف جہازوں کے لئے بہت مفید ثابت ہوگا۔ اِس کے علاوہ چونکہ اُس کی ماں آئرلینڈ کی رہنے والی تھی، اِس لئے اُس کے دل میں وطن کی محبت نے بھی جوش مارا تھا۔ مارکونی نے 1897ء میں “وائرلیس ٹیلی گراف اینڈ سگنل” کے نام سے ایک کمپنی قائم کی۔ جس کا نام بعد میں “مارکونی وائرلیس ٹیلی گراف کمپنی لمیٹڈ” ہو گیا۔ اس کمپنی کے ذریعے اسے اپنا کام بڑھانے کے لئے سرمایہ اور فنی وسائل مہیا ہوئے۔
مارکونی نے اگلے چار سال مُسلسل محنت اور تجربات میں صَرف کئے اور برابر اپنے بنائے ہوئے سامان میں اضافہ اور ترقی کے لئے کوشاں رہا۔ اِس دوران میں اُس کے سامنے صرف ایک مقصد تھا کہ پیغام موصول کرنے اور بھیجنے کا ایک ایسا آلہ تیار کرلے جو دور دراز سے پیغامات وصول کر سکے۔ شروع میں اسے ایک مِیل تک پیغام رسانی میں کامیابی ہوئی۔ کُچھ دِنوں بعد اس نے جزیرہ وٹ سے بورن ماؤتھ اور وہاں سے سینڈ بینک تک 18 میل تک وائرلیس سے پیغام پہنچایا۔ پھر 1900 میں وہ جزیرہ وٹ سے لزارڈ کے مقام تک پیغام پہنچانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس دوران میں جہازران کمپنیوں نے اپنے جہازوں میں وائرلیس سیٹ لگانے کی طرف بہت کم توجہ دی تھی اور ان کی جانب سے مارکونی کو زیادہ ہمت افزائی نہیں ہوئی۔ اِس لئے یہ صاف ظاہر تھا کہ جہازوں کے لئے اس کی اہمیت اسی صورت میں ثابت ہوگی ۔ جب وائرلیس سے دور دراز مقامات تک پیغامات بھیجے جاسکیں۔ اُس زمانے میں تمام سائنسدانوں کا یہ متفقہ فیصلہ تھا کہ وائرلیس کی لہریں روشنی کی لہروں کی طرح کُرۂ زمین کی گولائی کے ساتھ ساتھ حرکت نہیں کریں گی۔ اِس لئے اُن کا خیال تھا کہ وائرلیس کے ذریعے زیادہ فاصلے تک پیغام بھیجنا نا ممکنات میں سے ہے۔
مارکونی کا نظریہ اِس کے بالکل برعکس تھا۔ اُس کے تجربات نے اُس پر واضح کر دیا تھا کہ اگر زیادہ لمبے ائیریل اور زیادہ طاقتور ٹرانسمیٹر استعمال کئے جائیں تو زیادہ فاصلے تک بھی پیغام بھیجے اور وصول کئے جاسکتے ہیں۔ اس لئے اس نے فیصلہ کیا کہ بحرِ اوقیانوس کے دونوں کناروں پر دو بہت طاقتور ٹرانسمیٹر سٹیشن قائم کرے اور اس طرح دونوں طرف سے پیغامات بھیجنے اور وصول کرنے کا سلسلہ شروع کرے، چنانچہ اس نے کارنوال میں پولڈھو اور امریکہ میں کیپ کاڈ کے مقام ان سٹیشنوں کے لئے منتخب کئے۔
یہ دونوں سٹیشن قریب قریب پایۂ تکمیل کو پہنچ چکے تھے کہ ایک بہت بڑا سانحہ پیش آیا۔ ان دونوں سٹیشنوں پر بیک وقت زبردست طوفانِ باد و باراں نے ائیریل کے تار اس کے کھمبے اور سٹیشن کا سامان تباہ و برباد کر دیا۔ مارکونی نے اس پر پچاس ہزار پونڈ صَرف کئے تھے اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کی تمام کوششوں پر پانی پھر گیا ہے۔ لیکن اس با ہمت شخص نے ان سٹیشنوں کی مرمت کا انتظار بھی نہیں کیا۔ اس نے پولڈھو ( برطانیہ ) میں ایک نیا لیکن نسبتاً سادہ ایئریل نصب کیا اور اپنے دو معاونوں کے ساتھ امریکہ کے مشرقی کنارے پر نیو فاؤنڈ لینڈ کے جزیرے کی جانب روانہ ہو گیا۔ اُس نے اپنے ساتھ کینوس کی بنی ہوئی بڑی بڑی پتنگیں اور کچھ چھوٹے غبارے لئے تھے جن کے ذریعے سینٹ جان کی بندرگاہ پر ایئریل ہوا میں بلند کر دیا۔ نیو فاؤنڈ لینڈ میں تیز ہوائیں برابر چل رہی تھیں اور اس میں ایک غبارہ اور ایک پتنگ غائب ہو گئے۔ لیکن 12 دسمبر 1901ء کو ٹھیک ساڑھے بارہ بجے مارکونی کو پیغام رسانی کی مشین کا بٹن دبانے سے پیدا ہونے والی مدہم آوازیں بالکل صاف سنائی دیں۔ جو 2200 میل دور پولڈ ھو کے سوا کہیں اور سے نہیں آسکتی تھیں ۔ مارکونی نے اپنے کان میں لگا ہوا آلہ اپنے ایک نائب کو دیا۔ جِس نے اِس کی تصدیق کر دی۔ یہ کارنامہ اس لحاظ سے اور بھی شاندار تھا کہ آواز بھیجنے کا تمام تر انحصار ٹرانسمیٹر پر ہوتا تھا۔ کیونکہ ریسیور میں آواز کو بڑھانے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ اس طرح انتہائی مشکلات اور سائنسدانوں کی مخالفت کے باوجود مارکونی نے بحرِ اوقیانوس کے دونوں کناروں پر واقع ممالک کو ایک دوسرے سے ملا دیا اور ریڈیو سٹیشنوں کے موجودہ نظام کی بِنا ڈالی۔

اسی تاریخی واقعہ کی یادگار کے طور پر کچھ عرصہ پہلےلندن میں اک نمائش کا اہتمام کیاگیاتھا۔ اس نمائش میں بہت سی نادر چیزوں کے علاوہ مارکونی کی آواز کا ایک ریکارڈ بھی سنایا گیا۔ جس میں اس نے بتایا کہ اسے یہ کامیابی کیسے حاصل ہوئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *