سیدنا عمرِ فاروق کا توہینِ رسالت پر ایمان افروز فیصلہ

سیدنا عمرِ فاروق کا توہینِ رسالت پر ایمان افروز فیصلہ”۔

وَمِمَّا جَاءَ فِي لَعْبِ الْغِلْمَانِ مَا حَكِيَ أَنَّ غِلْمَانًا مِنْ أَهْلِ الْبَحْرَيْنِ خَرَجُوا يَلْعَبُونَ بِالصَّوَالِجَةِ وَأَسْقُفُ الْبَحْرَيْنِ قَاعِدٌ فَوَقَعَتِ الْكَرَّةُ عَلٰى صَدْرِهٖ فَأَخَذَهَا، فَجَعَلُوْا يَطْلُبُوْنَهَا مِنْهُ فَأَبٰى ، فَقَالَ غُلَامٌ مِّنْهُمْ: سَأَلْتُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ ﷺ إِلَّا رَدَدْتَهَا عَلَيْنَا فَأَبٰى لَعْنَهُ اللَّهُ وَسَبَّ رَسُولَ اللَّهِﷺ فَأَقْبَلُوا عَلَيْهِ بِصَوَالِجِهِمْ، فَمَا زَالُوْا يَخْبِطُونَهٗ حَتّٰى مَاتَ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ فَرُفِعَ ذٰلِكَ إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالٰى عَنْهُ فَوَاللَّهِ مَا فَرِحَ بِفَتْحِِ وَّلَا غَنِيمَةٍ كَفَرْحَتِهٖ بِقَتْلِ الْغِلْمَانِ لِذٰلِكَ الْأَسْقُفِ وَقَالَ: اٰلأٰنَ عَزَّ الْإِسْلَامُ* إِنَّ أَطْفَالًا صِغَارًاشُتِمَ نَبِیُّھُمْ فَغًضِبُوْ لَهٗ وَانْتَصَرُوا وَأَهْدَرَ دَمَ الْأَسْقُفِ۔

(المستطرف في كل فن مستظرف, امام شہاب الدین محمدبن احمد ابی الفتح الابشیہی، باب ۷۵ صفحه ۶۸۹ مطیع مؤسسة المختار قاہرہ ،مصر )

ترجمہ :

بحرین میں چند بچے ہاکیوں سے کھیل رہے تھے اور بحرین کے عیسائیوں کا بشپ (بڑا پادری) بھی قریب ہی بیٹھا ہوا تھا۔ دورانِ کھیل گیند اُس کے سینے پر جا لگی۔ اُس نے گیند اٹھا کر اپنے پاس رکھ لی اور منت سماجت کے باوجود (گیند) دینے سے انکار کر دیا۔ بچوں میں سے ایک نے آگے بڑھ کر گیند واپس کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا:

سَأَلتُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ ﷺمَّا إِلَّا رَدَدْتَهَا عَلَيْنَا:
ترجمہ!
“تمہیں نبی کریم ﷺ کا واسطہ گیند اِنہیں واپس کر دو۔“

اُس ملعون نے گیند واپس دینے کی بجائے رسول اللّٰہﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کی۔ (پادری کی طرف سے توہینِ رسالت ہوتے ہی) غیرتِ اسلامی سے سرشار ننّھے منّے،محمدﷺ کے شیروں نے اس ملعون پادری کو ڈنڈوں ہی سے مار مار کر واصلِ جہنم کر دیا۔ یہ مقدمہ خلیفۂ وقت سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللّٰہ عنہ کی عدالت میں پیش کیا گیا ( تو اس وقت آپ کی کیفیت دِیدنی تھی ) راوی کہتے ہیں کہ اس واقعہ سے قبل سیدنا عمرِ فاروق رضی اللّٰہ عنہ کو بڑی بڑی فتوحات حاصل ہوئیں اور بیش قیمت مالِ غنیمت بھی ملا لیکن آپ رضی اللّٰہ عنہ ان سب چیزوں سے اتنا خوش نہ ہوئے جتنا ان بچوں کے ہاتھوں گستاخِ رسول عیسائی پادری کے قتل پر خوش تھے۔ اِس موقع پر آپ رضی اللّٰہ عنہ نے تاریخ ساز جملہ ارشاد فرمایا:
“الان عز الاسلام”
یعنی(گستاخِ رسول کے ناپاک وجود سے زمین کو پاک کرنے کی برکت سے) آج اِسلام غالِب (معزز) ہو گیا۔ پھر عیسائیوں کو مخاطب ہو کر فرمایا
“جب ان بچوں کے آقا و مولا نبی کریمﷺ کے متعلق گندی زبان استعمال کی گئی تو کیا پھر بھی وہ غصے میں نہ آتے؟
اور اپنے آقا و مولیٰﷺ سے وفاداری کا ثبوت نہ دیتے؟
(اس کے بعد سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللّٰہ عنہ نے گستاخ پادری کے قتل کو درست قرار دیتے ہوئے بچوں کے حق میں فیصلہ صادر کیا اور فرمایا )
سنو!

“اس ( گستاخ ) عیسائی پادری کے خون کی کوئی قیمت نہیں۔”

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *