کیوں ہم سے کِنارہ کر بیٹھے، کیوں آنا جانا چھوڑ دیا

کیوں ہم سے کِنارہ کر بیٹھے، کیوں آنا جانا چھوڑ دیا،،،،

بیمارِ محبت کے دل پر کیوں بٙرق گرانا چھوڑ دیا۔۔۔۔

جب تک کہ بگڑتے آپ رہے، ہم آپ کو روز مناتے رہے،،،،

جب آپ نے روٹھنا چھوڑ دیا، ہم نے بھی منانا چھوڑ دیا۔۔۔۔

جب غور سے سنتے آپ رہے، ہم کہتے رہے افسانۂ دل،،،،

جب آپ نے سننا چھوڑ دیا ہم نے بھی سنانا چھوڑ دیا۔۔۔۔

عادی تھے بہت ہم پینے کے، عادت سی پڑی تھی پینے کی،،،،

ساقی نے جب آنکھیں دِکھلا دِیں، سب پِینا پِلانا چھوڑ دیا۔۔۔۔

دل درد سے جلتا رہتا ہے اب مارے مارے پھرتے ہیں،،،،

جس روز سے اُس بُت نے ہم کو سینے سے لگانا چھوڑ دیا۔۔۔۔

نہ وہ لذّتِ راز و نیاز رہی، نہ وہ رونقِ سوز و ساز رہی،،،،

جس دن سے ہماری محفل میں اُس شوخ نے آنا چھوڑ دیا۔۔۔۔

تیرے جٙور و جفا سے تنگ آ کر، اب ہم نے بھی آخر اے اعظم،،،،

ہنس ہنس کے رُلانا سیکھ لیا رٙو رٙو کے منانا چھوڑ دیا۔۔۔۔

(اعظم چشتی)

نوٹ :

بٙرق : (بجلی)۔

سوز و ساز : (رنج و راحت)۔

جٙور و جٙفا : (ظلم و ستم)۔

(اِبنُ الاٙشرٙف)

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *